وبا کے خلاف چین کی عالمی خدمات

کووڈ-19 کی شناخت، اس کی روک تھام کے طریقہ کار، تشخیص کے لئے کٹس کی تیاری، ویکسین پر تحقیق و تیاری اور پھر ویکسین کی منصفانہ تقسیم تک، عوامی جمہوریہ چین نے وبا کے خلاف عالمی برادری کی بھرپور مدد کی ہے، صدر شی جن پھنگ کی جانب سے ہر موقع پر بنی نوع انسان کی بلاامتیاز اور غیر مشروط مدد کی گئی ہے۔ چین ہمیشہ انسداد وبا تعاون میں صف اول میں کھڑا رہا ہے اور ویکسین کی منصفانہ تقسیم کے لیے “پہلے دستے ” میں شامل ہے۔

گزشتہ سال چین نے 120 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو ویکسین کی 2 ارب سے زائد خوراکیں فراہم کیں اور چین سب سے زیادہ ویکسین فراہم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر استعمال ہونے والی ہر دو میں سے ایک ویکسین “میڈ اِن چائنا” ہے۔ چین افریقہ کو ویکسین کی مزید 1 بلین خوراکیں فراہم کرے گا، جن میں سے 600 ملین خوراکیں بطور امداد ہوں گی، اور آسیان ممالک کو ویکسین کی 150 ملین خوراکیں مفت فراہم کرے گا۔ چین کا 20 ممالک کے ساتھ ویکسین کا پیداواری تعاون بھی جاری ہے جس سے ترقی پذیر ممالک کو عملی اقدامات کے تحت ویکسین تیار کرنے میں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

اب جب کہ دنیا کے کئی ممالک کو اومی کرون کا سامنا ہے ، عوامی جمہوریہ چین نے اس حوالے سے بھی شاندار رہنمائی فراہم کی ہے۔چین کا شہر تھین جن اومی کرون سے متاثرہ چین کا پہلا شہر ہے ۔ شہر میں اومی کرون کا مصدقہ کیس سامنے آنے کے بعد صرف اڑتالیس گھنٹوں میں تھین جن کے 14 ملین باشندوں نے نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ کا پہلا دور مکمل کیا۔ یہ ایک حیران کن رفتار ہے جس کے پیچھے چین کے فرنٹ لائن کمیونٹی کے عملے اور پورے معاشرے کی مشترکہ کوششیں ہیں ۔ انسداد وبا کے مختلف اقدامات پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ تھین جن کے عام باشندوں نےمختلف صورتوں میں انسداد وبا کی خدمات میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ یا تو وہ رضاکار ٹیم میں شامل ہوئے، یا انہوں نے انسداد وبا کے اہلکاروں کو کھانا، گرم پانی، بستر وغیرہ پہنچائے ہیں۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ چین وبا کے بعد دنیا کی ترقی کے لیے چینی دانش اور چینی طاقت کا اشتراک کرے گا۔ترجمان نے کہا کہ اس وقت وبا کا پھیلاو بدستور جاری ہے۔ عالمی معاشی بحالی میں غیر یقینی عناصر کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، شمال اور جنوب کے درمیان ترقیاتی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے ، اقتصادی عالمگیریت کو منفی رجحانات کا سامنا ہے، اور بنی نوع انسان کو بے مثال چیلنجز درپیش ہیں ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ چین نے انسداد وبا کے عالمی تعاون میں فعال کردار ادا کیا ہے ،عالمی معیشت کی مستحکم بحالی کو فروغ دیا ہے، عالمی گورننس کی بہتری کو فروغ دیا ہے اور مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے۔

یاد رہے کہ اومی کرون کے پھیلاؤ کو صرف 3 ہفتے لگے ہیں اور 2022 کے پہلے ہفتے میں ہی دنیا بھر میں رپورٹ شدہ کیسز کی مجموعی تعداد 7 ملین سے تجاوز کر گئی تھی ۔ لیکن رقبے کے لحاظ سے قطر جیسے ملک سے بھی بڑے تھین جن نے اس وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے صرف دس دن سے بھی کم وقت لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے وبا پر قابو پانے اور بیجنگ سرمائی اولمپکس کی کامیاب میزبانی کے لیے چین کی صلاحیت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔چینی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد، حکومت کی جانب سے اقدامات پر سختی سے عمل درآمد اور وبا کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہی وہ اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین اس وبا کے خلاف کامیابی سے جنگ کر سکتا ہے۔