مغل حکمراں شاہ جہاں

شاہ جہاں ( 5 جنوری 1592 تا 22 جنوری 1666ء) پانچواں مغل حکمران تھا جس نے بادشاہ بابر، ہمایوں، اکبر اور اپنے والد جہانگیر کے بعد مغلیہ سلطنت کا تخت سنبھالا. یہ بات مشہور ہے کہ نور جہاں اسکے باپ جہانگیر کی حکمرانی کے آخری ایام میں سلطنت کے تمام امور خود سنبھالا کرتی تھی اور جہانگیر سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتی تھی۔

مغل حکمرانوں کے وارث شہزادے حکمرانی کے لئے آپس میں جنگ کرتے تھے. جس میں بہت سے سپاہی دونوں طرف کی لڑائی سے جاں بحق ہوتے اور سلطنت کو بھاری جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تھا. یہ سب کچھ شاہ جہاں نے بھی کیا. باقی بھائیوں کو شکست دے کر 1628ء میں تخت پر براجمان ہوا. اس نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں بہت سے مضامین کا مطالعہ کیا اور مارشل آرٹس، تلور بازی میں مہارت حاصل کی. اس نے فن تعمیر میں دلچسپی لینا شروع کی اور بعدازاں اپنے فن تعمیر کے خیالات و افکار سے دنیا کو حیران کر دیا. شاہ جہاں کی ذہانت اور جسمانی صلاحیتوں کی وجہ سے اس کے داد بادشاہ اکبر اس کی جانب کافی راغب رہے اور اسکے باپ جہانگیر کی بجائے اسے وراثت دینے کا سوچتے رہے۔

شاہ جہاں کی ان خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اسے فوج کی کمان سونپی گئی. فقط 25 برس کی عمر میں فوج کی کمان سنبھالتے ہی لودھی خاندان کے خلاف معرکہ خیز جنگ لڑی اور دکن کو فتح کر لیا. اس فتح کے بعد سلطنت کے علاقے کو مزید وسعت ملی. فتح کی خوشی میں جہانگیر نے شاہ جہاں کو ” بہادر شاہ جہاں ” کے لقب سے نوازا. اسی جنگ و جدل اور فتوحات کے سلسلے نے اس چیز نے سب کی توجہ مبدول کروائی کہ جہانگیر کے بعد تخت نشینی کے لئے سب سے موزوں آدمی شاہ جہاں ہے۔

زندگی کے آخری ایام میں شاہ جہاں کا باپ جہانگیر شراب و افیون کا عادی ہوگیا تو نور جہاں سلطنت کے انتظامی امور پر قابض رہی.اس نے اقتدار ہاتھ سے جانے کے خوف سے اپنی بیٹی کی شادی جہانگیر کے دوسرے بیٹے سے کر دی. مگر بیٹے کی امید سے محرومی اور تخت نشینی کی جنگ میں خرم اور شہریار کا داخل ہونا بہت بھاری ثابت ہوا. تخت نشینی کے بعد شاہ جہاں 30 برس تک بطور حکمران موجود رہا اور اس کے دور میں سلطنت سیاسی اور انتظامی لحاظ سے منظم سمجھی جاتی تھی.

شاہ جہاں نے اپنے دور حکومت میں بہت سی شاندار یادگاریں تعمیر کیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور آگرہ کا تاج محل ہے. آگرہ میں پرل مسجد، دہلی محل اور عظیم دہلی مسجد جن کی قیمت کروڑوں ڈالر یہ سب تعمیرات شاہ جہاں کے فن تعمیر کے شاہکار ہیں. دہلی کے لال قلعہ میں دیوان عام اور دیوان خاص خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا. شاہ جہاں آباد کی بنیاد بھی بادشاہ شاہ جہاں نے رکھی جسے اب پرانی دہلی بھی کہا جاتا ہے. یورپ سے آنے والے افراد کے لئے تخت شاہ جہاں خاص توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا جس میں یاقوت، نیلم اور زمرد جیسے قیمتی پتھر لگے ہوا کرتے تھے۔

شاہ جہاں نے کُل 11 شادیاں کیں. پہلی دو شادیاں فقط خاص مقاصد کی شادی تھیں. ارجمند بیگم جو کہ فارسی رئیس کی پوتی تھی اس سے ہونے والی شادی محبت کی شادی ثابت ہوئی. وہ اسکی زندگی کی محبت بن گئی اور اسی کے لئے تاج محل تعمیر کروایا گیا. شاہ جہاں کی یہ شادی 1612ء میں ہوئی اور تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ یہ شادی محبت کی ایک لازوال داستان اپنے اندر سموئے ہوئے تھی. شاہ جہاں کی زندگی کے آخری ایام جب شاہ جہاں سخت علیل ہوا تو شہزادوں کے درمیاں تخت نشینی کی جنگیں شروع ہو گئیں جس میں اسکا تیسرا بیٹا اورنگزیب فاتح قرار پایا جبکہ اس لڑائی میں سلطنت نے بہت سے بہادر جنگجو کھوئے اور بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

شاہ جہاں جب بیماری سے دوبارہ تندرست ہوا تو اسکے بیٹے اورنگزیب نے اسے آگرہ قلعہ میں نظر بند کروا دیا. چونکہ والد کی حیات میں ہی اورنگزیب بادشاہ بن چکا تھا لہذا شاہ جہاں جولائی 1658ء سے لے کر جنوری 1666ء تک آگرہ قلعہ میں ہی 8 سال تک نظر بند رہا. اسی نظری بندی کے عالم میں شاہ جہاں کی زندگی کا دور ختم ہوگیا اور وہ 22 جنوری 1666ء کو خالق حقیقی سے جا ملا.

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔