پاکستانیو! مزہ تو آرہا ہوگا تبدیلی کا؟

پی ٹی آئی کے بانیان میں سلجھے ہوئے سیاستدان، سینئر وکلاء، ریٹائرڈ جج، جنرلز، بیوروکریٹس، ادیب، دانشور، معیشت دان، پروفیسرز، ڈاکٹرزودیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے افراد شامل ہوئے۔ اور بالا شبہ پی ٹی آئی جماعت کو پاکستان کے پڑھے لکھے اور نوجوان افراد کی جماعت کہا جاتا رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کی کثیر نوجوانوں کی تعداد جو روایتی سیاستدانوں جیسا کہ نواز شریف، زرداری اور آمروں سے تنگ تھی وہ بھی فوج در فوج پی ٹی آئی کا حصہ بنتی گئی۔

میری نظر میں جیسے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اسی طرح 30 اکتوبر 2011 کو ”نیا پاکستان” کی قرارد منظور ہوئی تھی۔جب پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین جناب عمران خان نے مینار پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے عظیم و شان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپکا لیڈر آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ کیونکہ اس جلسہ کے بعد وہ تحریک انصاف کہ جسکے چیرمین کو عام انتخابات میں خود اپنی نشست جیتنا بہت مشکل ہوتا تھا اور شیخ رشید جیسے منجے ہوئے سیاستدان خود عمران خان کے منہ پر انہیں ٹانگہ پارٹی کہا کرتے تھے، پھر اسی پارٹی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ بالآخر اگست 2018 میں پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے مسند اقتدار پر براجمان ہوگئی۔

تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے پی ٹی آئی نے روایتی سیاست کے جمود کو توڑا اورپاکستانیوں خصوصا نوجوانوں کی توجہ اپنے منشورکیطرف مرکوز کروائی۔ اقتدار کے حصول سے قبل پی ٹی آئی کے پاس پاکستان کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی، جغرافیائی، معاشرتی مسائل کے حل موجود تھے، اور ان کا تذکرہ عمران خان صاحب گاہے بگاہے کرتے رہتے تھے۔ جب ڈالر 100 روپے میں ملتا تھا تو کرنسی کے اُتار چڑھاؤ میں ایک روپے کے فرق سے عمران خان صاحب پاکستانی قوم کو بتایا کرتے تھے کہ پاکستان کے اوپر قرضوں میں کتنے ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے مگر آج ڈالر 175 روپے کا ملتا ہے۔ اسکے باوجود قوم کوڈالر ریٹ بڑھنے کے فائدے گنوائے جاتے ہیں۔

اسی طرح عمران خان صاحب اپنے جلسوں اور پریس کانفرسوں میں اکثر دعوی کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرنا پسند کریں گے مگرآج حکومت میں آکرسعودی عرب، آئی ایم ایف سے قرضہ مل جانے کوحکومت کا بہت بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ یاد رہے نیا پاکستان کی قیادت نے پاکستانی تاریخ میں تاریخ ساز قرضے لئے ہیں اور 70 سالہ تاریخ بدل دی ہے۔ ہمیں بتایا جاتارہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملکی قرضے اتارنے کے لئے اشیاء پر ٹیکس لگا کر مہنگائی کررہی ہے مگر 70 سالہ قرضے ایک طرف مگر نئے پاکستان کے ساڑھے 3 سالہ قرضے ایک طرف۔ نئے پاکستان میں قرضوں کا بوجھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکا ہے۔ پرانے پاکستان میں جب پٹرول 68 روپے فی لیٹر ملتا تھا توپی ٹی آئی قیادت پاکستانی قوم کو بتایا کرتی تھی کہ چور ڈاکو حکومت پاکستانیوں پر ظلم کررہی ہے اور پٹرول کے ریٹس 45 روپے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے۔ مگر آج جب نیا پاکستان بن چکا ہے تو پٹرول 147 روپے فی لیٹر پر پہنچ کر بھی پاکستانی قوم پر یہ احسان عظیم جتلایا جاتا ہے کہ پاکستان میں 147 روپے میں ملنے والا پٹرول دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ، یورپین ممالک اور پڑوسی ملک بھارت سے ابھی بھی بہت سستا ہے۔

پرانے پاکستان میں 180 روپے فی کلوملنے والا بناسپتی گھی آج 400 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ضروریات زندگی کی تقریبا تمام بنیادی اشیاء آٹا، گھی، چینی، چاول، دالیں، سبزیاں، فروٹس، گوشت کے ریٹس پرانے پاکستان کے ریٹس سے بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے پرانے پاکستان سے نئے پاکستان میں ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ یاد رہے پرانے پاکستان کے حکمرانوں کو وطن عزیز میں دہشت گردی، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ، معاشی عدم استحکام جیسے بڑے مسائل کا سامنا تھا، لیکن ان کرپٹ حکمرانوں نے ناصرف دہشت گردی کو شکست دی بلکہ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے لئے بجلی کے میگا پراجیکٹس بھی لگائے اسکے ساتھ ملکی معیشت کو پانچ اشاریہ آٹھ کی اوسط سے ترقی بھی دلوائی مگر افسوس آج پاکستان کے معاشی حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ یاد رہے پرانے پاکستان میں عمران خان صاحب کے معیشت دانوں کی اک فوج حکومت ملنے کی منتظر تھی مگر جیسے ہی نیا پاکستان بنا وہ معیشت دانوں کی فوج پتا نہیں کہاں چلی گئی، وہی زرداری دور کے شوکت ترین وہی حفیظ شیخ جن کی معاشی پالسیوں کے اوپرماضی میں موجودہ وزیراعظم تنقید کے نشتر برسایا کرتے تھے آج انکی اپنی کابنیہ کے ممبر بن گئے۔

بار بار وزراء خزانہ کو تبدیل کیا جاتا ہے باربار ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی سرکاری مشینری یعنی افسران کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت میں ہونے والے ہر واقعہ کا ذمہ دار پرانے حکمرانوں کو قرار دیکر جان چھڑالی جاتی ہے۔ 12 کروڑ عوام کے اوپر شہاز شریف کے مقابلہ میں عثمان بزدار صاحب کو وزیر اعلی لگا دیا جاتا ہے۔ جناب عمران خان صاحب سے اک چھوٹا سا سوال کہ آپ ہر وقت شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کا حوالہ دیتے رہتے ہیں، کیا آپ عثمان بزدار صاحب جیسی شخصیت کو اپنے ان اداروں کے چیف ایگزیکٹو بنانا پسند کریں گے۔ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ عمران خان صاحب نے کن صلاحیتوں کی بناء پر عثمان بزدار صاحب کو 12 کروڑ عوام کے صوبہ پنجاب کا چیف ایگزیکٹو لگا دیا۔ بہرحال پرانے پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں سے نفرت کرنے اور تبدیلی کا خواب دیکھنے والے متوالوں، ٹائیگرز، جوانوں سے چھوٹا سا سوال کہ موجودہ دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے بعد ”مزہ تو آرہا ہوگا تبدیلی کا؟ ”