سانحہ مری

کچھ دن پہلے مری میں کئی لوگ بے موت مارے گۓ۔بے موت کا لفظ میں نے کیوں لکھا یہ آپ میری تحریر مکمل پڑھ کر بخوبی سمجھ جائیں گے ۔ مری میں کچھ بے حس لوگوں نے صرف چند ٹکے کمانے کے لۓ سازش کی اور یہ وہاں موجود عینی شاہد نے بتایا ہے اس لۓ اسے جھوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

مری سے پنڈی جانے والے راستے پر برف نے قدرتی طور پر راستہ بند نہیں کیا تھا بلکہ مقامی بے حس لوگوں نے برف ڈال کر راستہ بلاک کیا اور پھر گاڑیوں والوں سے پانچ سے چھ ہزار روپے لے کر راستہ صاف کرنے کی بات کی ۔اس طرح پیچھے گاڑیوں کی قطاریں بنتی گئیؐں جن لوگوں کے زیادہ پیسے تھے اور وہ قطار میں أگے تھے وہ نکل گئے اسی دوران قدرتی برف باری بھی بڑھتی گئی راستہ کو بند کرتی گئی اور راستہ بند ہوتا گیا۔ اس قوم کی بی حسی کا اندازہ ہمیں کرونا کے دوران بھی ہوا تھا جب پانچ دس روپے والا ماسک سو اور ڈیڑھ سو روپے کا کر دیا گیا تھا جب کہ چائنا نے اپنی عوام کے لئے ایک دن میں ہسپتال تیار کر لیا تھا۔

خیر بات ہو رہی تھی مری کی جب نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہا تو لوگوں نے ہوٹلوں میں رکنے کا ارادہ کیا ہوٹل والے بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ دھوتے ۔انھوں نے پانچ ہزار کراے کو پچاس ہزار پر پہنچا دیا اور صاف بول دیا پیسے کم نہیں ہو سکتے اگر أپ کے پاس نہیں ہیں تو اپنی گاڑیوں میں رات گزار لیں۔یہاں فواد چوہدری صاحب کا ذکر ضرور کروں گی جو بہت خوش تھے کہ مری میں ایک لاکھ بیس ہزار گاڑیاں داخل ہویئی ہیں جس سے پاکستان کو بہترین منافع حاصل ہو گا تو فواد چوہدری صاحب منافع کے ساتھ ساتھ جانی نقصان کی ذمہ داری بھی تو اپنے کھاتے میں ڈالیں۔ اس کے ساتھ ہی وہاں موجود مساجد اور مدرسوں کی تعریف بھی کرتی چلوں جن کی انتظامیہ نے لوگوں کو پناہ دی کھانا دیا اور رات بھر ہیٹر بھی چلائے۔ بے حسی کے ایسے واقعات ایک مسلم مملکت میں ہوں تو دل سے ایک ہی صدا نکلتی ہے اب بھیج خدایا عیسیٰ کو مہدی کو اتار دے دجال۔