کیا ریاست مدینہ تعمیر ہو رہی ہے؟

درد والم کی وادیوں میں ڈوبتا تیرتا سورج ہر شب حیرتوں کے سمندر کی گہرائی میں غرب ہو جاتا ہے۔ اور ایسے میں مخلوق خدا بہ حال زار ارض و سما کے مالک سے چاہتوں کی رگیں کریدنے کا تقاضا کرتی ہوئی یہ اظہار تمنا کرنے پر مجبور ہوتی دِکھائی دیتی ہے کہ ہوس کی سُرخی رُخِ بشر کا حسین غازہ بن رہی ہے۔

اِس دور جبر و استبداد میں فلک کا چہرہ لہو سے تر دِکھائی دیتا ہے۔ اور زمین جنازہ بنی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ چارہ گروں کی بستی میں کوئی چارہ گر دِکھائی نہیں دیتا۔ کوئی مسیحا نہیں …کوئی ابنِ مریم نہیں جو دستِ مسیحائی سے قوم کی تپتی ہوئی پیشانی کے تفکرات کا درماں کر سکے۔ اِسے تقدیر الٰہی جانئے یا شامتِ اعمال کا نتیجہ کہ ہم پر مسلط حکمرانوں کی سیرت بالکل ہمارے ہی جیسی ہے۔ اور شائد! صورت تو بالکل ہمارا ہی عکس ہے۔ جیسے ہم …ویسے ہمارے حکمران … مرجھائی ہوئی فصلیں غذائیت سے محروم ہوا کرتی ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ ہمارا حال اُس بیوہ کی رِدا کی مانند ہے جس میں لاچارگی کے پیوند لگے ہوتے ہیں۔ ایسی رداؤں پر بلبلیں رویا کرتی ہیں۔ زاغ و زغن مسکرایا کرتے ہیں۔ جب خوشبو کا یارانہ تیز ہواؤں سے ہو جائے تو اُس وقت پُھول مسلے جاتے ہیں۔ آنچل اُڑنے لگتے ہیں۔ زلفیں بکھرنے لگتی ہیں۔ چہرے اُجڑنے لگتے ہیں۔ اور قسمتیں برباد ہونے لگتی ہیں۔

یہ میرا وطن … میرا پیارا وطن …پاکستان… ایک عظیم اِسلامی ریاست جسے 14 اگست 1947ء کو اللہ اور اُس کے رسولؐ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ آج 71 برس بعد عمران خان کے ذہنِ رسانے اِسے ریاستِ مدینہ بنانے کا عزم کیا ہے۔ دیکھئے! ریاست مدینہ کے خدوخال دیکھئے! اور ماتم کیجئے! اپنا سینہ آپ ہی پیٹتے۔ اپنے چہرے پر خود ہی طمانچے رسید کیجئے۔ بال نوچئے… بین کیجئے کہ ریاست مدینہ تعمیر ہو رہی ہے۔ جس میں ایک راہ چلتی گاڑی کے مسافروں کو برلب سڑک سرکاری اہلکار گولیوں سے بُھون رہے ہیں۔

اُس خاندان کی ایک بچی جسے پہلے زندہ بچا لیا جاتا ہے اور پھر دوبارہ اُسے اُسی گاڑی میں بٹھا کر گولی مار دی جاتی ہے کیونکہ اِس کی بالغ رائے گواہ بن کر قاتل پولیس اہلکاروں کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ خدا کی پناہ…روئے زمین پر ایسا ظلم کہ زمین وآسمان کانپ اُٹھے۔ ایسا ظلم تو زمانہ جاہلیت کے جابر ترین حکمران بھی نہیں کیا کرتے تھے۔

یہ1 2 ویں صدی کی کیسی ریاست مدینہ تعمیر ہو رہی ہے کہ جس میں بائیس کروڑ عوام میں سے ایک بھی شہری محفوظ نہیں ہے۔14 سو سال پہلے معرضِ وجود میں آنے والی ریاستِ مدینہ میں تو جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ درختوں اور راستوں کا بھی حق ادا کیا جاتا تھا۔ یہ کیسی ریاست مدینہ بن رہی ہے جس میں اِنسانوں کے حقوق بھی پامال کئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اِنسانیت شرمندہ ہے۔ اُس ریاست مدینہ کے معمارِ اعظم کا نام محمد عربیؐ تھا۔ جس نے دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ اُس ریاستِ مدینہ میں معمار اعظمؐ کے ساتھیوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ جیسے لوگ تھے۔ مگر اِس ریاست مدینہ میں دیکھئے کہ وزیراعظم عمران خان کی بصیرت نے لوگوں کی بصارت چھین لی ہے۔ معاشرہ اندھا ہوا چاہتا ہے۔

ظلم… شبِ ہجر کے لمحات کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ بجلی، پانی، گیس سمیت ضروریات زندگی کی تمام چیزیں مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ ریاست مدینہ بن رہی ہے۔ جہاں شعور کے نام پر جہالت پھیل رہی ہے۔ جہاں علم کے نام پر تجارت کی جا رہی ہے۔ جہاں قانون کی اوٹ میں قتل کئے جا رہے ہیں۔ جہاں آسائش کے نام پر تنگدستی پھیلائی جا رہی ہے۔ جہاں خبر کے نام پر بے خبری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ جہاں انصاف کے نام پر ظلم ہو رہا ہے۔ یہ ہے نئی ریاست مدینہ جس میں امن نام کی کوئی چیز نہیں۔ جس میں آنکھیں چھین کر چراغ بانٹے جا رہے ہیں۔

میں سوچ رہا ہوں کہ یہ ریاست مدینہ تعمیر ہو رہی ہے یا مسمار کی جا رہی ہے؟ مجھے تو ریاست مدینہ مسمار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جس ریاستِ مدینہ میں فواد چوہدری جیسے مستری بھرتی کئے گئے ہوں وہ ریاست مدینہ تعمیر نہیں مسمار ہی ہو سکتی ہے۔ آج تک اِس نام نہاد ریاستِ مدینہ کے اطلاعات کے مستری کی زبان سے قوم نے کبھی کوئی فکر انگیز خبر نہیں سُنی۔ وہی جو کبھی نون لیگ کے طلال چوہدری استعمال کیا کرتے تھے اُس سے دو ہاتھ آگے فواد چوہدری دِکھائی دیتے ہیں۔ اِس ریاست مدینہ کے مستریوں کی ایک لمبی قطار ہے جو ایک ایک اینٹ رکھ کر تعمیر کے عمل کو مسماری کے حوالے کر رہے ہیں۔

ایک مستری صاحب کا نام اسد عمر بھی ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے اِن کے بلند و بانگ دعوے سُن سُن کر قوم نہال ہوئی چاہتی تھی۔ جیسے ہی اِن کے ہاتھ میں تعمیراتی اوزار پکڑائے گئے۔ اِن کی ساری کی ساری باتیں زمین بوس ہو گئیں۔

تیسرے مستری کا نام شاہ محمود قریشی ہےجناب وزیرخارجہ کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے ہیں۔پرانے مستری ہیں۔ تجربہ کار ہیں۔ پہلے بھی اِسی ریاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں مگر پہلے اِن کی کمپنی کوئی اور تھی۔ پہلے یہ اُس کمپنی میں تھے جس کا نعرہ تھا، روٹی، کپڑا اور مکان یہ اپنے سابقہ دورِ اقتدار میں نہ کسی کو روٹی دے سکے۔ نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ بلکہ اِس کے اُلٹ اِن کے آستانے پر روٹیاں نچھاور ہوتی رہیں۔ مریدوں کے رزق پر پلنے والے پیر کبھی ریاستِ مدینہ نہیں بنا سکتے۔ قارئین آپ موجودہ ریاستِ مدینہ کے مستریوں سے شائد! پوری طرح واقف نہ ہوں۔ اِن کی طویل فہرست ہے۔ یہ کوئی نئے لوگ نہیں ہیں۔ سب کے سب پرانے چہرے ہیں۔ نئی بوتل میں پرانی شراب انڈیلی گئی ہے۔ بیواؤں اور رنڈوؤں کو پھر سے نئے عقد میں باندھتے ہوئے کوئی نئی دلہن بنی ہے تو کوئی نیا دولہا۔ کوئی طلاق یافتہ ہے تو کوئی خلع یافتہ۔ کوئی پیپلزپارٹی سے آیا ہے تو کوئی نون لیگ سے۔ کسی نے مشرف کی کابینہ میں حلف اُٹھایا تھا تو کسی نے جماعت اسلامی سے حلف توڑا ہے۔ چٹے بٹے، نیلے، پیلے، کالے گورے، مقدمات میں ملوث، چوریوں اور ڈکیتیوں کے ملزمان، عمران خان کی چھتری تلے آ کر ریاست مدینہ بنانے جا رہے ہیں۔ ارے کون سی ریاستِ مدینہ؟ کیسی ریاستِ مدینہ؟ میں یہ نہیں کہتا کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی والے نوروں نہلائے ہوئے تھے۔ بالکل نہیں۔ وہ بھی ایسے ہی تھے اور یہ بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ اب اِن کے مستریوں کے نام جانئے مستری پرویز خٹک وزیر دفاع ہیں۔موصوف پہلے صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔

اسی طرح شہر یار خان آفریدی، شفقت محمود، خالد مقبول صدیقی ۔ عمر ایوب خان،  شیخ رشید، بیرسٹر فروغ نسیم، عامرمحمود کیانی،  شیریں مزاری، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، گورنر پنجاب چوہدری سرور،  عبدالعلیم خان،  محمود خان،  شاہ فرمان اور فیصل واوڈا سمیت آپ کو ایک لمبی فہرست اِن مستریوں کی نظر آئے گی جو ریاستِ مدینہ کے خواب دِکھا دِکھا کر عوام سے اُن کی تعبیریں چھین رہے ہیں۔ آپ اِن میں سے کسی ایک کا نام بھی گوگل پر جا کر سرچ کریں تو ہر ایک کی ہسٹری آپ کے سامنے آ جائے گی۔ اِن سب لوگوں پر کرپشن کے کیسز بھی ہیں اور اخلاقی بدعنوانیوں کے کیسز بھی۔

اب آپ اندازہ لگا لیں کہ یہ ہے مستریوں کی وہ جماعت جو ریاست مدینہ بنانے جا رہی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ریاستِ مدینہ مسمار ہونے جا رہی ہے۔ کیا آپ بھی اِس بات کی تائید کرتے ہیں یا نہیں؟ آپ کو اختلافِ رائے کا پورا پورا حق ہے۔ مجھے اندازہ ہے شدید ردِّعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ مگر میں مجبور ہوں میں عمران خان سے محبت کے باوجود جھوٹ نہیں لکھ سکتا۔ میں پی۔ ٹی۔ آئی سے عقیدت کے باوجود آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ میں ظلم کو انصاف کیسے لکھ دوں؟ میں بے چینی کو قرار کے لباس میں کیسے ملبوس کر دوں؟ کہ یہی میرا فریضہ ہے کہ میں جو دیکھوں، جو محسوس کروں اُسے ضبط تحریر میں لاتے ہوئے سپرد قلم کر دوں۔