دھرنے کی نہیں “دھرنے” کی ضرورت ہے

 

جماعت اسلامی (کراچی) نے حقوقِ کراچی کے سلسلے میں سندھ اسمبلی کے سامنے دھرناجاری ہے۔ “دھرنے” کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو سیاسی جماعتوں کی “گھیراؤ” مہمات کو “دھرنے” کا نام جس پارتی نے دیا وہ جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کی قیادت میں 1996 میں اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے کے وقت دیا تھا۔ اس وقت کے بعد آج تک دھرنے کا لفظ اتنی مقبولیت حاصل کر گیا کہ کوئی پارٹی بھی “گھیراؤ” کا لفظ استعمال نہ کر سکی اور جب جب، جہاں جہاں، جس جس نے بھی اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے “گھیراؤ” مہم چلائی اس نے اپنی مہم کا نام “دھرنا” ہی دیا۔ چنانچہ اسلام آباد کا 126 دن کا دھرنا ہو یا پورے ملک میں کئے جانے گھیراؤ، سب کے سب گھیراؤ “دھرنے” ہی کہلائے۔

آج سے چند برس پہلے جماعتِ اسلامی کی جانب سے کراچی الیکٹرک کے خلاف بھی، کراچی کے مختلف مقامات پر دھرنے دینے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کو عوامی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی لیکن اس کے نتائج کے سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ

شکست وفتح میاں اتفاق ہےلیکن

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

جماعت اسلامی ملک کے سیاسی میدان میں ہر اس مسئلے کو اٹھاتی رہی ہے جس کا تعلق ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود سے ہو۔ بے شک جماعتِ اسلامی قانونی دائرے میں رہ کر ہر اس مقصد کیلئے جد و جہد کرتی چلی آ رہی ہے جس میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خوشحالی مضمر ہو۔ یہ بھی نہیں کہ جماعت ذہنی جمود کو توڑنے اور عوام کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہو لیکن ہوتا یہ آیا ہے کہ جماعت کی جانب سے چلائی جانے والی تحریکوں اور مچائی جانے والی ہر ہلچل کے ثمرات دوسری پارٹیاں ہی اٹھاتی نظر آئیں جس کی وجہ سے ایسے مثبت نتائج جس میں عام انسان کی فلاح وابستہ ہو، حاصل نہیں ہو سکے اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی صورت میں ہی سامنے آتا رہا۔ جماعت کی جانب سے ملک بھر میں اور خصوصاً کراچی میں بڑے بڑے جلسے، جلوس، دھرنے اور ریلیوں کا اہتمام تو ضرور کیا جاتا رہا ہے لیکن سب سے زیادہ حیرت کی بات جو سامنے آتی رہی ہے وہ یہ کہ ان کے کسی ایک بھی جلسے یا ریلی میں جتنی تعداد میں افراد شریک ہوتے ہیں، جنرل الیکشن میں جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد اس کا چوتھا بھی نہیں ہوتی۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جماعتِ اسلامی کی مہم نہایت منظم اور پر امن انداز میں شروع ہوتی ہے اور اسی طرح اختتام پذیر بھی ہوجاتی ہے۔ کسی بھی مقام پر امن و امان کا کبھی کوئی مسئلہ پیدا کرنے سبب بھی نہیں بنتی۔ بلا شبہ یہ ایک اچھا، جمہوریت پسندانہ اور مہذبانہ طریقہ کار ہے لیکن کیا پاکستانی سیاست میں یہ طریقہ کار کوئی انقلاب یا تبدیلی لا سکتا ہے؟۔

ایک جانب تو یہ بات بھی بہت قابل توجہ ہے کہ حقوقِ کراچی کا نام لیکر جس مہم کا آغاز جماعت اسلامی کرتی نظر آرہی ہے اس میں شاید بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے۔ کراچی کے ساتھ ستیلانہ سلوک کوئی آج کا نہیں ہے۔ اس کا آغاز ایوبی دور سے اس وقت ہو چکا تھا جب یہاں کے عوام نے ایوبی الیکشن میں بانی پاکستان کی بہن، محترمہ فاطمہ جناح، کا ساتھ دیتے ہوئے ایوب خان کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس کے نتیجے میں گوہر ایوب کی قیادت میں کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی اور پاکستان میں نسلی نفرتوں کی داغ بیل ڈالی گئی۔

محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کا فیصلہ جماعت اسلامی ہی کا تھا جس پر کراچی کے عوام نے جماعت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ بھٹو کے دور میں کوٹا سسٹم کے نفاذ کے ساتھ ہی ایک واضح لکیر سرحد کے اِس اور اُس پار کے لوگوں کے درمیان کھینچ دی گئی۔ اگر ایسے قانون کے خلاف “چار” دستخط نہیں ہوئے ہوتے تب بھی یہ ظالمانہ قانون نافذ العمل ہو ہی جاتا۔ اس قانون نے سندھ میں دو قومی نظریے کی ایک اور بنیاد سندھی اور غیر سندھی کی ڈالی گئی اور شہری حقوق کی پامالی در پامالی کی ایسی روایت پڑی کہ آج تک اہل کراچی اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کوٹا سسٹم نے تعلیمی اداروں سے لیکر ہر شعبہ ہائے زندگی میں سرحد کے اُس پار والوں کو دیوار سے لگ جانے پر مجبور کردیا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے جنم لیا اور یوں یہ شہر مزید گرفتارِ بلا ہوتا گیا۔

اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ جو آواز جماعت کی جانب سے چالیس بیالیس برس قبل اٹھائی جانی چاہیے تھی وہ اس وقت اٹھائی جا رہی ہے جس کا کریڈٹ کسی اور کے نام جا چکا ہے۔ ایسے موقع پر میں ایک روات بیان کرنے کے بعد نہ صرف اجازت ہوں گا بلکہ دھرنا دینے والوں کو غور کرنے کا مشورہ بھی دونگا کہ وہ مثبت نتائج حاصل کرنے کیلئے اپنی تحریک پر نظر ثانی ضرور کریں۔

ایک نہایت شریف مولوی کو ایک وسیع خطہ اراضی تحفتاً دیا گیا۔ وہ اس پر فصل اگاتے اور محافظت کیلئے وظیفہ پڑھنا شروع کر دیتے۔ ہر مرتبہ گدھے آکر تیار فصل کھا جایا کرتے۔ وہ وظائف میں اضافہ کرتے رہے مگر گدھوں کی تعداد میں ہر مرتبہ اضافہ ہوتا گیا۔ زمین عنایت کرنے والے نے کہا کہ حضرت آپ فصل کی حفاظت میں ناکام کیوں ہیں تو عرض کرتے میں تو ہر مرتبہ وظائف میں اضافہ کرتا جا رہا ہوں۔ مالک نے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا کر گدھوں کی ایسی مار لگائی کہ ان کو راہ فرار کے علاوہ اور کچھ نہ سوجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں دھرنے کی نہیں ہاتھ ٹکا کر “دھرنے” کی ضرورت ہے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔