“اُمّت ِ وسط ” کہاں کھو گئی؟

اُمّتِ مسلمہ سراسر آخرت فراموش اور دنیا کی حرص میں مبتلا کردینے والے رویوں میں مبتلا ہوتی چلی جارہی ہے۔ دنیا میں مسلمان جس طرح دوسری اقوام کے ہاتھوں پس رہے ہیں اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے اللہ تعالی کو کس قدر ناراض کر دیا گیا ہے۔ خدا نے دنیا کی امامت کی ذمہ داری جس اُمت پر ڈالی تھی وہ تو اس کا حق ادا کرنے کے بجائے خود بھی مرغوباتِ دنیا سے لطف اندوز ہونے میں لگ گئی۔ حالانکہ مسلمان بخوبی جانتے تھے کہ بنی اسرائیل سے یہ منصب کیوں چھین لیا گیا اور پھر دنیا میں ذلیل و رسوا کر کے دربدر بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا؟

یہودی اتنی بڑی ذمہ داری سے ہاتھ دھونے کی وجوہات سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ تو سمجھتے تھے کہ ہم تو اللہ کے چہیتے ہیں اور ہمارے اعمال چاہے کچھ بھی ہوں، ہماری سرزنش ہوئی بھی تو گنتی کے چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے اپنے نفس کی لگام خواہشوں کے قبضے میں دے دی، چنانچہ دنیا کی اِمامت سے سبکدوش کر دیے گئے۔ اتنا بڑا منصب کسی ایک گروہ سے لے کر کسی دوسرے گروہ کے سپرد کر دیا جانا معمولی بات نہ تھی، جس کو وہ بلا چوں و چرا ہضم کر لیتے، حالانکہ اس قدر فاش غلطیوں کی یہ سزا تو ملنی ہی تھی۔

اپنی غلطیوں پر شرمسار ہونے کے بجائے نا خود ہی نبی آخرالزماں پر ایمان لائے اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کا راستہ اپنانے سے روکنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ یہودیوں کے دلوں میں بیماری بڑھتے بڑھتے اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی پوری کی پوری نسلوں کو تباہ و برباد کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ وہ ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ کھلے عام ایسے ایسے اقدامات کرتے چلے آرہے ہیں کہ امت مسلمہ بھی اس منصب کے لائق نہ رہے، اور اسی طرح اللہ کے غضب کا نشانہ بنے جس طرح خود بنا دیے گئے ہیں۔

مسلمان جانتے بوجھتے ان کے شیطانی ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ دنیاوی لحاظ سے اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ اس ترقی کی چکا چوند کی آڑ میں مسلمانوں کو تنزلی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ ہمارے دانشور، سیاسی رہنما اور مذہبی طبقہ بھی جانے انجانے اس پستی میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی دنیا کے عیش و آرام میں میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ مسلمان حکمرانوں اور علماء کرام کا کردار کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مسلمان بھی سوچے بیٹھے ہیں کہ ہم تو آخری نبی کی امت ہیں، بخش دیئے جائیں گے۔ وہی یہودیوں والے رویے اپنائے ہوئے ہیں۔ بُرا بھلا کہتے بھی نہیں تھکتے لیکن چلنا بھی یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر ہے۔ کتنے خوبصورت جال بچھا کر مسلمانوں کو گھیرنے کی کوشش کی گئی۔

اُمتِ مسلمہ کو گونگا، بہرا اور اندھا کر دیا گیا۔ جانتے ہوئے آگ کی طرف رواں دواں ہیں۔ دنیا میں بے شمار اسباب اکھٹے کر لیے لیکن آخرت کا نہیں سوچا۔ یہودی یہی تو چاہتے ہیں جس میں وہ پوری طرح کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے رویوں نے انہیں اپنے ہدف کی طرف بڑھنے میں بھرپور مدد فراہم کی۔ چنانچہ سرزمینِ مقدس سعودی عرب میں بھی وہ قدم جمانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایشیائی مسلمان ان کی چالوں کو تو بخوبی سمجھتے ہیں، لیکن ان کی نوجوان نسل کو بھی میڈیا اور مغربی تعلیم کے حصار میں لے کر بے بس کر دیا گیا ہے۔

آج ہمارا سب سے بڑا ہدف اپنے بچوں کو مغربی افکار و نظریات کے اظہار سے نکالنا ہے۔ جن کی وجہ سے وہ بے دین ہو رہے ہیں۔ گھروں میں والدین پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو باہر کے طاغوتی اثرات سے بچانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ استغفار اور دعائیں کریں اور انہیں بتائیں کہ اللہ نے مسلمانوں پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈالی ہے اور اس کا تقاضا کیا ہے؟ انہوں نے دنیا کی گندگی کو صاف کرنا ہے نہ کہ خود اس کا حصہ بنیں۔ ابھی بھی مہلتِ عمل باقی ہے۔ چلیں اُمتِ وسط ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے نئے سال کا آغاز یہود و نصاریٰ کی چالوں کو ناکام بنانے سے کریں۔

علامہ اقبال نے فرمایا:

*بے خبر ! تو جوہرِ آئینہ ایام ہے*

*تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے*