پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ کا اہم شراکت دار

چین کی جانب سے 2013 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو جسے مختصراً بی آر آئی کہا جاتا ہے، پیش کیا گیا تھا جسے آج عالمی حلقوں میں مشترکہ مفاد اور اشتراکی ترقی کا بہترین اور قابل عمل نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی71 ویں جنرل اسمبلی نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹوکے ”جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات ” کے اصول کو عالمی اقتصادی گورننس کے تصور میں شامل کیا ہے جس سے اس عالمی انیشئیٹو کی مزید اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

اسی بی آر آئی کے تحت ہی چین پاکستان معاشی تعاون کے اہم سنگ میل سی پیک کی تعمیر تیز رفتاری سے جاری ہے جسے پاکستان کی معاشی ترقی کا ایک اہم ستون سمجھا جا رہا ہے۔گزشتہ برس دو ہزار اکیس میں چین۔پاک اقتصادی راہداری کی تعمیراتی سرگرمیوں کو آٹھ برس مکمل ہو چکے ہیں۔اس دوران پاکستان بھر میں بجلی کے منصوبوں،صنعتی پارکس اور عوامی منصوبوں کی تعمیر میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔پنجاب میں سی پیک کے تحت واحد ٹرانسمیشن پروجیکٹ مٹیاری لاہور ڈی سی ٹرانسمیشن پروجیکٹ فعال ہو چکا ہے۔دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو کے تحت پہلے بڑے ہائیڈرو پاور اسٹیشن منصوبے، کروٹ ہائیڈرو پاور اسٹیشن نے پانی ذخیرہ کرنے کا آغاز کر دیا ہے، یوں اس منصوبے نے رواں برس دو ہزار بائیس میں بجلی کی فراہمی کی بنیاد رکھ دی ہے۔

اس منصوبے کے تکمیل کے بعد پچاس لاکھ افراد کے لیے بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے گا۔سی پیک کے تحت زراعت کے شعبے میں ابھی حال ہی میں چین اور پاکستان نے اسلام آباد میں،پاکستانی پیاز کی چین برآمد کے لیے جانچ اور قرنطین کے مسودے پر دستخط کیے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زرعی برآمدات کے حوالے سے طے پانے والا یہ پہلا معاہدہ ہے جس سے پاکستانی پیاز کو چینی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔صنعتی تعاون کا مثالی منصوبہ،رشکئی خصوصی اقتصادی زون جامع تعمیر کے مرحلےمیں داخل ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ چین کی امداد سے تعمیر کیے جانے والے گوادر ووکیشنل اسکول کی تعمیر بھی مکمل کی جا چکی ہے جو مقامی عوام کیلیے تعلیم،ہنر اور امید کا باعث ہے۔وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کو سی پیک سے نہ صرف توانائی کے بحران سے نمٹنے،بلکہ جدید بنیادی تنصیبات کی تعمیر میں بھی مدد ملی ہے جبکہ پاکستان کے تمام علاقے ہی سی پیک کی تعمیر سے مستفید ہو رہے ہیں۔

ابھی حال ہی میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے بہترین پاکستانی اہلکاروں کے لیے ایوارڈ کی تقریب بھی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے۔ گوادر پورٹ، توانائی، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور صنعتی تعاون کے منصوبوں کے 27 پاکستانی کارکنان اور اہلکاروں کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔ ایوارڈ کی تقریب پاکستان میں چینی سفارت خانے کی جانب سے منعقد کی گئی جس میں پاکستان میں چین کے سفیر نونگ رونگ اور پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات، اسد عمر نیشرکت کی اور ایوارڈز پیش کیے۔پورٹ قاسم پاور اسٹیشن کے پاکستانی اہلکارفضل رحیم نے بتایا کہ انہیں پورٹ قاسم پاور اسٹیشن میں کام کرتے ہوئے 6 سال سے زائد ہو چکے ہیں اور انہوں نے ذاتی طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان میں آنے والی مثبت تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ پاور اسٹیشن کی تعمیر سے مقامی لوگوں کو ملازمت کے بے شمار مواقع ملے ہیں۔ کمرشل آپریشن کے بعدبہت سے مقامی انجینئرز جو ابھی فارغ التحصیل ہوئے ہیں انہیں کام کرنے اور سیکھنے کے بھرپور مواقع ملے ہیں جبکہ اس پاور اسٹیشن کی تعمیر سے پاکستان میں بجلی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے میں کافی حد تک مدد ملے گی۔

چینی سفیر نونگ رونگ نے ایوارڈ یافتہ اہلکاروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی کامیابیوں کو دونوں ممالک کے معماروں کی مشترکہ کوششوں سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت ایک کامیاب علاقائی اقتصادی تعاون پلیٹ فارم کے طور پر، چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستانی اہلکاروں اور کارکنان کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور اپنی ذاتی اقدارکا احساس کرنے کے لیے ایک وسیع موقع فراہم کرتی ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے سی پیک کی تعمیر میں ہونے والی مثبت پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے تمام پاکستانی اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ چینی کمپنیز میں کام کرنے اور ان سے سیکھنے کے قیمتی موقعے سے بھرپور استفادہ کریں تاکہ سی پیک کی ترقی میں مزید مثبت کردار ادا کیا جا سکے۔

حالیہ عرصے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے بھی متعدد مرتبہ سی پیک کے حوالے سے مثبت بیانات سامنے آئے ہیں جسے چین نے بھرپور سراہا ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی میڈیا بریفنگ میں اس بیانیے کو پاکستان کی جانب سے چین پاک دوستی اور تعاون کو اہمیت دینے کی عکاسی قرار دیا ہے جسے چین بے حد سراہتا ہے۔

چین نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کیساتھ مل کر موجودہ منصوبوں کی بنیاد پرصنعت،زراعت،سائنس و ٹیکنالوجی اور عوام کے معاش سمیت مختلف میدانوں میں تعاون پر مزید توجہ مرکوز کی جائے گی اور سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ کا مثالی منصوبہ بنانے کی کوشش جاری رکھے جائے گی تاکہ دونوں ممالک نیز خطے کے عوام اس سے وسیع پیمانے پر مستفید ہو سکیں۔سی پیک کے ساتھ ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ کے دیگر منصوبوں میں دنیا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا ایک نمایاں عنصر یہی ہے کہ یہ سرمایہ کاری منصوبوں کے ذریعے تمام ممالک کی مساوی شرکت کے لیے کھلا پلیٹ فارم ہے۔عالمی سطح پر معاشی ماہرین اور مستند جریدے پیش گوئی کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بی آر آئی کے ثمرات کا پیمانہ بھی انتہائی وسیع ہوتا جائے گا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں تقریباً 56 مختلف ممالک 2040 میں اپنی سالانہ جی ڈی پی میں 10 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ دیکھیں گے۔لہذا امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہو گا جہاں سی پیک کے تحت اقتصادی سماجی ترقی کو عروج ملے گا۔