سالِ نو کی تیاری کیسی بیماری ؟

یہ باہر کیا ہورہا ہے ؟ کہیں فائرنگ ہورہی ہے ؟ یہ دھماکے کیسے ہیں ؟ مجھے تو بہت خوف محسوس ہورہا ہے! اس لئے میں نے اتنی رات کو تمہیں فون کیا ہے ۔ چار مرتبہ فون کیا ہے کیا آپ گھر پر نہیں ہیں ؟ یہ وہ جملے جو فلیٹ میں گرا ئونڈ فلور پر موجود ایک انتہائی ضعیف اور قدرے بیمار آنٹی کے فون پر تھے جو گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار تھیں اکیلی اور بیمار !! میں نے کہا جی میں گھر پر ہی ہوں مگر شور میں مجھے بھی دوسرے کمرے میں رکھے فون کی آواز نہ آسکی ۔

آپ گھبرائیں نہیں آج 31دسمبر ہے اور نئے سال کے آغاز کے سلسلے کے یہ دھماکے اور پٹاخے ہیں ۔ گلی محلے کی چھتوں پر فائرنگ کی آوازیں ہیں ۔ کچھ نہیں ہوا بس وہی خرافات ہیں باجی ! آپ سوجائیں گھبرائیں نہیں ۔ تو ان کی بے چینی ختم ہوئی آواز قدرے بہتر ہوئی کہا اچھا میں تو ڈر ہی گئی تھی۔ پھر بقول ان کے وہ اٹھیں وضو کیا نماز پڑھی آوازوں سے گھبراتی رہیں اور پھر کچھ دیر عبادت کے بعد انہوں نے ٹی وی کھولا کیونکہ انکے گھر کھڑکی یا بالکنی نہیں اور وہ دروازہ رات کو نہیں کھول سکتیں لہٰذا بیرونی ماحول سے باخبر ہونے کیلئے ٹی وی دیکھنا چاہا ۔ بتا رہی تھیں کہ ہر جگہ فائیو اسٹار پر نمائش چورنگی پر اور کراچی کے دیگر علاقوں میں بے پناہ رش ہے جگہ جگہ لوگ جمع ہو کر ہلا گلا کر رہے ہیں ۔

منچلے اسکوٹروں کے سائلنسر نکال کر شور مچاتے اور بگل نما باجے بجاتے ہنسی مذاق کرتے گزر رہے ہیں ۔ مٹھائی والوں کی دکانوں پر رش ہے صرف کراچی ہی نہیں ہر صوبے اور اسکے مختلف علاقوں کا یہی حال ہے ناچ گانے بھنگڑے، دوسرے غیر ممالک میں بھی فائر ورکس اور عجیب و غریب تماشے ہو رہے ہیں ۔ ٹی وی پر تو آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور نہ جانے کہاں کہاں کے واقعات دکھائے جا رہے ہیں اور ٹی وی کا ہر چینل یہی خرافاتی پرو گرامز دینے میں مگن ہے ۔ مجھے تو شور کی آوازوں سے فائرنگ اور رش سے بڑا خوف آتا ہے ۔ جاننے والوں میں ، رشتہ داروں میں کچھ لوگ “کرونا “اور دیگر دوسری وجوہات کی بناء پر وفات پاچکے تھے تو میرا دل غمگین اور روح بے چین تھی۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ کتنی تباہی ہوئی؟ دنیا میں لاک ڈائون کی کیا وحشت تھی ؟ سارا کاروبارِ زندگی بری طرح متاثر تھا اور اموات ہو رہی تھیں پھر ہمارا خیال آخرت پر ، اپنی موت پر ، اپنے انجام پر نہیں بلکہ ہم غیروں کی نقالی میں پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔

اگلے دن میں نے کئی نا خوشگوار واقعات بھی سنے ۔ ہمارے محلے میں بھی بڑی فائرنگ ہوئی ایک موبائل پولیس آئی اور دکان کے چند لڑکوں کو پکڑ کر لے گئی ۔ میں نے گھبرا کر اپنے شوہر سے کہا دیکھیں انہیں پولیس لے جا رہی ہے کہنے لگے ابھی سب واپس آجائیں گے ، سب ملے ہوئے ہیں !! میں نے کہا نہیں اچھا ہوا اب یہ ایسا ہر گز نہیں کرینگے پولیس انہیں سبق سکھائے گی ۔ مگر افسوس صد افسوس!! واقعی وہ لڑکے دس منٹ میںدکان واپس آگئے ۔ سالِ نو” کی تیاری تو گویا ایک خطرناک بیماری ہے یہ کیسی بیماری ہے ؟ لوگوں کو تو ڈرنا چاہئے نیا سال تو بے شک نوید ہے خوشی کی بات ہے مگر شعوری طور پر سوچیں تو آپکا ایک قیمتی زندگی کا سال ختم ہوگیا ۔ آپ موت سے مزید قریب ہوگئے یہ تو ڈر کی بات ہے کسی کو اپنی موت کا معلوم نہیں مگر یہ ضرور معلوم ہے کہ ایک دن اچانک آجاتی ہے ! تو کیا اس ناگہانی موت کی تیاری کی ہے ۔

صد شکر کہ اس نے ہمیں اب تک کھلایا ، پلایا ۔ تندرست اور توانا رکھا ، دنیا کی آفات سے بچائے رکھا ۔ لاکھ کرائسس کے باوجود زندگی میں سکھ دیا اور ہر طرح کی آسائشیں دیں ۔ اس کا تو شکر ادا کرنا چاہئے کہ اے اللہ تیرا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اتنی تباہی بربادی ، آندھی، طوفان ، زلزلے ، سیلاب ، آگ لگنے کے واقعات جلنے مرنے سے اور ہر بیماری اور حادثاتی موت سے بچا ئے رکھا ۔ شکر الحمد للہ کہ ہم آج صحت مند زندہ سلامت ہیں تو شکر گزاری میں صدقہ خیرات کرکے سجدوں میں گرے رہنا چاہئے ۔ خاص کر مسلمانوں کو تو خصوصی انتظامات کرنے چاہئیں مغرب سے ہی مسجدوں میں سڑکوں پر ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے اور سجدہ شکر کرکے انتظامات اتنے منظم انداز میں کرانے چاہئیں کہ دنیا ہل جائے اور یہی موقع دعوت الی اللہ کا جذبہ شکر گزاری کے ساتھ ایسے انداز میں ادا کرنا چاہئے کہ دل سکون پا جائے اور دیکھنے ، سننے والا بھی مائل ہو جائے ۔ ذکر کی محافل ہونی چاہئیں۔ شکر گزاری کے اظہار کے تمام تر ذرائع استعما ل کرنے چاہئیں۔ ہر لمحہ کو رب کی رضا اور عبادت اور دعا کیلئے مقدم سمجھنا چاہئے کہ رب راضی ہو جائے اس دنیا سے تمام بیماریاں ، پریشانیاں اور تکالیف دور ہو جائیں ۔

گھروں میں بھی عورتوں ، بچوں کو اپنی گذشتہ زندگی پر شکر ادا کرنے اور آئندہ کیلئے خرافات سے بچنے اور نئے پر امن دعوتی منصوبوں کیلئے عملی طور پر دعا ئوں کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ عزیز رشتہ داروں سے غم شکوے ، گلے دور کرکے معافی تلافی کرکے دلوں کو شاد کرنا چاہئے اور رب سے دونوں جہاں کی عافیت طلب کرنی چاہئے ۔ اپنے ہی لئے نہیں بلکہ دوست احباب ، عزیز رشتہ دار ، بیمار ، مرحوم تک کیلئے خصوصی دعائوں کا لازمی اہتمام کرنا چاہئے لیکن ہمارے دل کہاں اٹکے ہوئے ہیں ؟ ہم کہاں جا رہے ہیں ، کیا کر رہے ہیں ؟ کس کی نقالی اور خرافاتی اعمال میں گھرے جا رہے ہیں ؟ کیا کیا بے ہودگیاں اور بے حیائیاں دکھاتے پھرتے ہیں کیا رب کی عدالت میں یہ قابل قبول ہونگے ؟ ہمیں تو خوشی اور غم کے آداب تک ہمارا دین سکھاتا تھا ۔

خیبر کی فتح اور کعبہ میں مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے تک کیلئے رب کی بڑائی بیان کرنے ، تسبیح کرنے ، سجدہ کرنے کو مقدم کیا گیا ہے ۔ تو سالِ نو تو ہمارے لئے رب کی عظیم دین ہے زندگی کا حسین تحفہ ہے جسے ہمیں قدر کی نظر سے دیکھنا چاہئے ۔ اللہ ہمیںصحیح فہم دے اور اسے بہترین طور پر استعمال کرنے کی توفیق دے ۔ گھڑی کے سیل کو بدلا جا سکتا ہے مگر زندگی کی گھڑی کے سیل اچانک رک کر آپ کی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں اس سے سبق لینا ہے :

“غافل تجھے گھڑیا ل یہ دیتا ہے منادی

گردوں نے گھڑی عمر کی اک اورگھٹادی “