آنے والا نیا سال 2022‎‎

شمس و قمر ہمارے رب کی نشانی

سال نو کی آمد آمد ہے۔ ایسے میں دو طرح کے لوگ نظر آتے ہیں ایک وہ جو بہت شدومد سے نئے سال کو خوش آمدید کرتے ہیں اور کچھ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ تو ہمارا سال ہی نہیں ہے۔ ہمارا کیا لینا دینا اس شمسی سال سے ہم مسلمان ہیں اور ہم تو ہجری/ قمری سال کو ہی اپنا مانتے ہیں۔ اس کائنات کے خالق نے جب سے یہ زمین و آسمان پیدا کئے ہیں تب سے مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے۔

*قرآن میں سورہ التوبہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں!۔۔۔ترجمہ : مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہی ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔ یہی درست دین ہے۔

قرآن سورج اور چاند کو اللہ کی نشانیاں قرار دیتا ہے۔ جیسے چاند ہمارا ہے ویسے ہی سورج بھی ہمارا ہے کیونکہ ان دونوں کا خالق ہمارا اللّٰہ ہی ہے ۔ دونوں کے کچھ فرائض ہیں، کچھ مقررہ قاعدے اور راستے ہیں جن کے وہ پابند ہیں۔ ہم چاہے شمسی کیلینڈر کو نہ مانیں مگر دن کا آغاز سورج کے طلوع اور اختتام سورج کے غروب سے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے دینی شعائر( رمضان، عیدیں، حج ،عدت وغیرہ) اگر چاند سے منسوب ہیں تو دنیاوی معاملات ( دن رات کا آنا جانا، اناج وسبزیوں کی پیداوار، پھلوں کا پکنا، انسانوں ، جانوروں اور پودوں کی بڑھوتری اور خوراک وغیرہ ) سورج کے محتاج ہیں۔ ہم بھلا سورج کو کیسے غیر مسلموں کے حوالے کر سکتے ہیں؟؟۔ سورج بھی ہمارے رب کی نشانی ہے چاند بھی ۔ پس تعصب چھوڑیں دین ہمیں تنگ نظری نہیں سکھاتا۔ مومن کی نظر افلاک پر ہوتی ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا۔

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا۔

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

داماں کو وسعت دینے کی بےحد ضرورت ہے۔ اگر برا نا مانیں تو میں کہوں، ہم شمسی سال کو اپنا نہ بھی کہیں، سال گزرنے کا ملال ہمیں بھی ہوتا ہے۔ شمسی سال کے آخری دنوں کی کیفیت کیا ہم نے کبھی ذوالحجہ میں محسوس کی؟ دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں کہ اسلامی سال کا آخری دن ہم ایسے ہی افسردہ ہوتے ہیں؟؟۔۔۔۔کیا ہمارے شادی بیاہ، بچوں کی تاریخ پیدائش ، اسکول کالج کے داخلے، دفاتر ، کیا شمسی کیلینڈر پر نہیں چل رہے؟ ہم میں سے کتنے ہیں جن کو اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش ہجری سال کے مطابق یاد ہے؟ شادی کی تاریخ طے کرتے ہوئے (محرم/ شوال کے علاوہ) کب ہم نے ہجری /قمری مہینے /سال کا خیال رکھا؟

ہجری یا قمری سال مسلمانوں کی پہچان ہے۔ اس کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کافی عرصہ بعد ہوا تھا۔خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے دور میں باہم مشورے سے ہوا۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ فرمائی اسی سے اسلامی سال کا آغاز کیا گیا۔حضور اکرم ﷺ نے ربیع الاول کے مہینہ میں ہجرت فرمائی لیکن ہجرت کا ارادہ ماہ محرم ہی سے فرما چکے تھے ۔اس لئے اسلامی تاریخ کے سال کی ابتدا محرم الحرام سے شروع کی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ محرم کو نبی کریم ﷺ نے شھر اللہ المحرم یعنی محرم اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے۔

اس سے قبل چار قسم کی تاریخیں مستعمل تھیں

(۱) تاریخ قمری ، چاند کے حساب سے تاریخ دیکھنا

(۲) تاریخ عیسوی ،عیسائیوں کی تاریخ ،جس کو تاریخ شمسی سورج کے حساب سے تا ریخ دیکھنا یعنی موجودہ انگریزی تاریخ

(۳) تاریخ عبرانی ، یہودیوں کی تاریخ

(۴)۔ تاریخ جولیانی

جہاں تک نئے سال کو منانے یا مبارکباد کا تعلق ہے تو اس کی توجیح تو اسلامی سال کے ابتداء میں بھی نہیں ملتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولیٰ کا کوئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نظر سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے تھے:

ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔(المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ)

نئے سال کی جہاں تک مبارکباد دینے کی بات ہے تو شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اور مبارکباد دینے والے کو کیا جواب دینا چاہیے تو شيخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو مبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو، مثلا اگر کوئی شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں تو آپ اسے جواب میں یہ کہیں کہ اللہ تعالی آپ کو خیر و بھلائی دے اور اسے خير و برکت کا سال بنائے، لیکن آپ لوگوں کو نئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں، اس لئے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں۔

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا لیکن اگر مجھے کوئی مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا، اس لئے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں، نہ اس کا حکم دیا گيا ہے اور نہ ہی اس سے روکا گيا ہے، واللہ اعلم