دورِ حاضر کے شاہینوں

دور حاضر کے شاہینوں کے نام !

شاہین کا جہاں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھیتوں کے درمیان ڈیرہ، کھلی فضائیں ،طوفان کا زوربڑھتا تو بچے کمروں کی طرف دوڑتے، خواتین بکھری چیزیں سمیٹنے لگتیں اور ہماری نگاہیں آسمان پر متلاشی ہوتیں۔

جہاں دور بہت دور آسماں پراوپر سے اوپر پر پھیلائے اڑانیں بھرتے شاھین دکھائی دیتے جیسےوہ طوفاں کو سواری بناۓ منازل طے کرتے ہوں۔ایسے میں جب سب پرندے گھروں میں سمٹے بیٹھے ہوں شاھین کا انداز نہ سمجھ آنے والا تھا۔آخر کچھ تو اس کے پاس ایسا ہے جو اسےدلیر اور نڈر بناۓ رکھتا ہے۔

کیا اس نے دو پر اور بھی چھپا رکھے ہیں جو بے خوف وخطر اڑانیں بھر تا نئے جہاں تلاش کرتا اوپر سے اوپر اڑتاچلا جاتاہے۔یہ سوال کھیتوں میں ہل چلاتے دادا جان سے کیا تو مسکرانے لگے ۔

بیٹا اس کے بھی باقی پرندوں کی طرح دو ہی پر ہیں ۔

لیکن جس چیز نے اسے فضاؤں کا بادشاہ بنا رکھا ہے ۔ وہ اس کا عزم و ارادہ اور بے جگری ہے اور اس کے سوچنے کا مختلف انداز ہے۔

وہ مشکلات کو رکاوٹ کے بجائے بلندی کا زریعہ سمجھتا ہے اور مستقل جستجو کو ساتھی بناۓ رکھتا ہے۔

اسکے بلندی کے خواب کبھی ماند نہیں پڑتے وہ نئی فضاؤں کے خواب دیکھتا بلندیوں کی طرف نگاہیں جمائے عازم سفر رہتا ہے۔

طوفان کی آمد کی بو پاکر وہ اس کے آنے کا انتظار کرنے کے بجائے خود اس کا سامنا کرنے کو چل پڑتا ہے طوفان میں گھس کر زور بازو آزماتااتنی بلندی پر چلا جاتا ہے کہ ہر طوفان اس کے نیچے بہت نیچے رہ جاتا ہے۔

طوفان کی تندی ایک طرف اسے مضبوطی دیتی ہے تو عزم واستقلال اور حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔دادا جان کا جواب گھمبیر سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔

آج سوچتی ہوں وہ فضاؤں کا راجااگر آندھی طوفانوں کا سامنا کرتا اس میں گھس کر مقابلہ کرتا اس طوفان کے اوپر سواری کرنے لگتا ہے تو زمین کے شاہین کے لئے بھی طوفان کم نہیں ہوتے ۔

وہی زور وشور اور اڑاتی ،پٹختی ،الٹتی پلٹتی ہوائیں ہیں۔وہ ان کا سامنا کرتا ان سے نبرد آزما، زور بازو آزماتا ، ہدف پر نگاہیں جمائے، بلندیوں کے خواب دیکھتا ان طوفانوں کو پیچھے بہت پیچھے چھوڑ کرایک سرورکے عالم میں عازم سفر رہتا ہے۔

باہر اندھیراکتنا ہی گہرا ہو اندر کی روشنی کم نہیں ہوتی عزم ٹوٹتا نہیں ، امید مرتی نہیں۔ آندھی ،طوفاں باد باراں وہ اپنے مقام پر تن تنہا چلتا اندھیرے میں دیۓ جلاتا، روشنی کا سامان کرتا ،نئے راستے بناتاڈٹا رہتا ہے۔

تاریخ پر نئے نقش ابھارنا اسی کا شیوہ ہے۔

اس کے قدم زمانے سے آگے پڑتے حاضر و موجود میں تسلسل جاری رکھتے ہیں ۔

اس کی تیز نگاہیں ایک طرف مستقبل کی تابانیوں کے خواب بنتی حال میں اہداف تلاش کرتی ہیں تودوسری طرف نوکیلی چونچ وقت کے پتھروں میں سوراخ کرتی چشمے جاری کرتی ہے ۔ اس کے تیز پنجے اپنے شکار کو بروقت دبوچتے ہیں۔

ایک دن دادا جان نے بڑی ہی عجیب بات بتائی کہنے لگے کہ شاھین ستر سال جیتاہے۔لیکن اسکی زندگی کا بھی ایک رازہے۔ چالیس سال کی عمر میں ایک وقت آتا ہے جب اس کی چونچ ٹیڑھی پر بھاری اور پنجے بےکار ہو جاتے ہیں۔وہ شکار کرنے اڑانیں بھرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔

اس وقت اسکے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا مر جائے یا تبدیلی کے تکلیف دہ عمل سے گزرے اور مزید تیس سال فضاؤں پر بادشاہی کرتا رہے۔

وہ اونچے پہاڑ پر جا کر اپنی چونچ پتھر پر مار مار کر توڑ دیتا ہے۔

نئی چونچ کے اگنے کا انتظار کرتا ہے۔پھر پنجوں کو نئی تیز چونچ سے اکھیڑتا اور پروں کو نوچ نوچ کر پھینک دیتا ہے ۔

یہاں تک کہ ناخن اور پردوبارہ اگ آتے ہیں۔ پھر وہ نئی زندگی کی اڑان بھرتا ہے اور مزید تیس سال کے لئے بادشاہی کے قابل ہو جاتا ہے۔

زندگی کے کئی ماہ وسال گزارنے کے بعد سوچ رہی ہوں۔ زمین کے شاہبازوں کے بھی پر بوجھل ہو چکے،چونچ میں تیزی نہیں پنجے مڑ گئے ہیں نہ اڑنے کا حوصلہ نہ شکار کی طاقت۔۔شکار کرنے کے بجائے شکار ہوئے جاتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی دو ہی راستے ہیں۔ یا مر جائیں یا تکلیف دہ تبدیلی کے عمل سے گزریں۔نگاہوں میں تیزی،سوچ و فکر میں تازگی کا سامان کریں۔پرانےکانٹے نکال پھینکیں ،خرابیوں اور بوسیدگی کو نوچ کر جہان تازہ کی نمود کریں ۔ اپنی خرابیوں کا ادراک پہلا قدم ہے۔اغیار کی تقلید نے پروں کو بوجھل کر ڈالا ہے اس سے نجات کا سوچیں۔ اپنا جہاں آپ پیدا کریں۔

زمانہ آپکا منتظر ہے قدم بڑھائیں۔کہ روشنی اور صبح آپ سے ہے۔