نیا سال منانے کی خوشی

حسن اٹھو بیٹا کام پر نہیں جانا کیا ۔حسن امی کی آواز پر آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا باورچی خانے سے امی کی آواز آئی جلدی منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں ناشتہ لا رہی ہوں ۔ حسن منہ ہاتھ دھو کر صحن میں رکھے تخت پر آکر بیٹھ گیا امی نے اس کے آگے چائے اور رات کی روٹی لا کر رکھ دی ۔حسن نے ناشتہ کیا اور امی نے چھولے کی چاٹ کا تھال حسن کے سر پر رکھنے میں اس کی مدد کی اور حسن چھولے بیچنے نکل کھڑا ہوا ۔

آج سے دو سال پہلے ۱۳ سال کے حسن کی زندگی بہت پر سکون تھی وہ بھی سب بچوں کی طرح اسکول جاتا تھا کیونکہ دو سال پہلے تک اس کے ابو زندہ تھے اور ان کی ہر متوسط طبقے کی طرح کی زندگی گزر رہی تھی۔ حسن کے ابو مکینک تھے اور پڑھے لکھے نہیں تھے انہیں اپنے بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق تھا حسن اور اس سے چھوٹی دو بہنیں تینوں بہن بھائی اسکول جاتے تھے ۔

حسن اورگھر والوں کی پر سکون زندگی میں وہ بھیانک ۳۱ دسمبرآیا جو ان کے سر سے باپ کا سایہ چھین کر لے گیا حسن کے ابو کی رات ۱۱ بج کر ۴۵ منٹ پر چھٹی ہوئی اور انھوں نے گھر کی طرف پیدل چلنا شروع کیا ۔ عموماً وہ پچیس منٹ میں گھر پہنچ جایا کرتے تھے۔ مگر أج نیو ایر کی گہما گہمی ہر طرف ہو رہی تھی نیو ایر مغربی تہذیب کی اندھی تقلید جس کا ہمارے مذہب اور معاشرے کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے خیر حسن کے ابو رش سے بچتے بچاتے تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف جا رہے تھے بارہ بج گے اور ہر طرف سے ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی نہ جانے کہاں سے ایک گولی أکر حسن کے ابو کی گردن میں لگی اور ان کی انھوں نے وہیں دم توڑ دیا۔

نیا سال منانے کی خوشی میں گولیاں چلانے والوں کو اس بات کی خبر بھی نہ ہوگی کہ کسی کے گھر کا واحد کفیل اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اب گھر کو چلانے اور دونوں چھوٹی بہنوں کو پڑھانے کی ذمہ داری حسن نے اپنے کمزور کاندھوں پر لے لی اپنی تعلیم کی قربانی دے کر اس نے چھولے بیچنے شروع کر دیے کیونکہ کوئی اور کام تو اسے أتا نہیں تھا اس کے ابو کہتے تھے بیٹا کام تو ساری زندگی ہی کرنا ہے ابھی تم صرف پڑھائی پر توجہ دو ۔ اور اب وہی حسن اپنے باپ کے شفیق سائے سے محروم ہو کرگھر چلانے کےلئے محنت مزدوری کر رہا ہے ۔

حصہ