صحت کے شعبے کو درپیش چیلنجز

2021 کا سال وبا کا دوسرا سال ہے ۔ اس سال کی خاص بات یہ رہی کہ کرونا کی ویکسین دریافت ہو کر لوگوں تک پہنچ گئی۔ ویکسین کو لے کر سال کی ابتداء ہی سے کافی مشکوک صورتحال پیدا کی گئی۔ کئی طرح کے فلسفے اور سازشیں دریافت ہوئیں۔ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو مگر عوام نے ویکسین لگانے میں کافی پس و پیش کی۔ مگر مختلف پابندیوں ( ہوائی سفر کی پابندی ، تنخواہ وصولی کی پابندی ، مختلف جگہوں پر داخلے پر پابندی) نے آخر دنیا کے طول عرض میں لوگوں کو ویکسین لگوانے پر مجبور کر دیا۔ کرونا کی ویکسین کا اس قدر جلد دریافت ہو جانا صحت کے شعبے میں ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔

ویکسین کی دریافت اگرچہ خوش آئند تھی مگر مختلف اقسام کی ویکسین نے دنیا کو منقسم کر دیا۔مختلف ممالک نے اپنے ہاں مختلف ویکسین کو سند قبولیت بخشی ہر ویکسین بنانے والے ادارے نے اپنی ویکسین زیادہ سے زیادہ مؤثر ہونے کا دعویٰ کیا جس سے ایک طرح کا عالمی کھنچاؤ پیدا ہوا۔ ویکسین کی تقسیم کے غیر منصفانہ ہونے پر افریقی ممالک نے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی۔ ساتھ ہی دنیا کو باور کرایا کہ اگر ہم محفوظ نہیں ہونگے تو باقی دنیا بھی محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ ویکسین پر تحقیق کرنے والے اداروں کی طرف سے کہا گیا کہ ویکسین کی افادیت میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ بہت سے ممالک میں اب بوسٹر ڈوز لگائی جا رہی ہیں۔

دوسری بڑی پریشانی دنیا بھر میں تباہی مچانے والا کرونا وائرس مسلسل اپنی شکلیں تبدیل کرتا رہا اور اب تک اس کی کئی اقسام سامنے آ چکی ہیں۔ وائرس اپنی فطرت کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ وائرس جب کسی جسم یا خلیے میں داخل ہوتا ہے تو وہ میزبان کی نقل تیار کرنا شروع کرتا ہے۔ جب انفیکشن بڑھتا ہے تو نقل کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس وائرس کی مختلف شکلیں سامنے آتی ہیں وہ اس کے ویرینٹ کہلاتے ہیں۔2020 کے آخر میں کرونا کے مختلف ویرینٹ نمودار ہونا شروع ہو چکے تھے۔ ان ویرینٹ پر کچھ چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں جن میں پھیلاؤ کی رفتار، ویکسین، مدافعتی نظام کی مزاحمت، تشخیص کے آلات ، عوامی صحت اور معاشرتی عوامل شامل ہیں۔ البتہ اس کی بنیادی ہیئت وہی ہوتی ہے۔ وائرس کی دیگر اقسام کی طرح SARS-CoV-2 جو کرونا وائرس کا باعث بنتا ہے اس میں بھی کئی ویرینٹ سامنے آ چکے ہیں۔ کسی بھی ویرینٹ کےمتعدی یا غیر متعدی ہونے کا کیسے پتا چلتا ہے؟

برطانیہ میں باقاعدہ ایک لیبارٹری ہے جہاں تمام مثبت کیسز کے نمونوں کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ جو وائرس کی ایک اسٹینڈرڈ شکل ہے اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی؟ اگر اس میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور وہ مختلف نمونوں میں دیکھی جاتی ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ وائرس کا مختلف ویرینٹ ہے۔ پھر اس تبدیل شدہ وائرسز کو دو درجوں میں سے کسی ایک میں ڈالا جاتا ہے یعنی یا تو وہ وائرس ‘ویرینٹ آف کنسرن’ میں شامل ہوتا ہے یا ‘ویرینٹ آف انٹرسٹ’ میں۔ ویرینٹ آف انٹرسٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا ویرینٹ کسی ایسے علاقے میں دیکھا گیا ہے جس کے متعدی ہونے کی شرح اور علامات سب سے پہلے آنے والے ایلفا ویرینٹ سے مختلف ہیں۔ اس کے بعد جب مختلف ٹیسٹوں کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ویرینٹ واقعی سب سے پہلے والے ویرینٹ سے مختلف ہے اور اس میں لوگوں کو بیمار یا متاثر کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو پھر اس ویرینٹ کو ویرینٹ آف کنسرن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘ابھی تک کرونا وائرس کی سامنے آنے والے ویرینٹ اور ان ویرینٹ نے کہاں جنم لیا اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ویرینٹ آف کنسرن’ میں مندرجہ ذیل ویرینٹ شامل ہیں

سن دوہزار بیس کے اواخر میں برطانیہ ظاہر ہونے والا میں الفا ویرینٹ، گزشتہ سال کے اواخر میں جنوبی افریقہ میں ظاہر ہونے والا بیٹاBeta ویرینٹ۔ برازیل میں ظاہر ہونے والا گیما Gamma ویرینٹ شامل ہیں۔ تاہم بھارت میں سامنے آنے والی قسم جسے ڈیلٹاDelta ویرینٹ کا نام دیا گیا انتہائی مہلک قسم قرار دی گئی۔ تازہ ترین ویرینٹ 25 نومبر اومیکرون کے نام سے سامنے آیا اور اس کو ویرینٹ آف کنسرن’ میں رکھا گیا ہے۔ جس کی اہم وجہ اس کا تیزی کے ساتھ پھیلنا بتایا جا رہا ہے یہ پہلے پہل افریقہ بوسنانا میں سامنے آیا ہے۔ پھر ڈنمارک برطانیہ، ناروے اور امریکہ کی 38ریاستوں میں بھی اس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔اومیکرون کی ہیئت ابھی تک سامنے آنے والے تمام ویرینٹ سے مختلف ہے تاہم ابھی اس کے متعدی ہونے کے حوالے سے ماہرین مشاہدات کر رہے ہیں تاہم حالیہ رپورٹ کے مطابق اومیکرون ویرینٹ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے کئی ممالک نے سفری پابندیاں پھر سے عائد کر دی ہیں۔

ویرینٹ آف انٹرسٹ میں اپسلون ویرینٹ جو گذشتہ برس جولائی میں کیلیفورنیا میں سامنے آیا تھا، اور Lambda ویرینٹ جو پیرو میں سامنے آیا ان دونوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو متاثرنہیں کیا اور نہ یہ اتنا زیادہ پھیلے، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اسے ’ویرینٹ آف کنسرن‘ سے نکال کر ’ویرینٹ آف انٹرسٹ‘ میں ڈال دیا۔یہی صورت حال Mu ویرینٹ کی رہی جس کا تعلق کولمبیا سے ہے جو کہ رواں سال کے آغاز میں ظاہر ہوا تو اسے بھی ویرینٹ آف انٹرسٹ میں ڈال دیا گیا۔ البتہ ان میں واقع ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ جہاں تک تعلق پاکستان میں کرونا کے کیسز کا ہے تو معجزاتی طور پر اس میں کمی دیکھنے میں آئی۔

اسی سال صحت کے شعبے میں پاکستان کو تیسرا بڑا چیلنج جو ملک کے طول عرض میں ہزاروں جانوں کے ضیاع کا باعث بنا وہ ڈینگی بخار تھا۔ ڈینگی جسے ہڈی توڑ بخار کا نام بھی دیا جاتا مریض کو بخار، سردرد، جوڑ درد میں مبتلا کرنے کے ساتھ جسم پر خسرے کی طرح کے سرخ دانے نمودار ہوتے ہیں۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں جیسا کہ پانی اور دیگر مائع کا استعمال بڑھا دیا جائے، مچھردانی کا استعمال ہو تو پیراسیٹامول کے ساتھ ہی کچھ دن میں بخار ختم ہو جاتا ہے اور مریض صحت مند ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے ان میں بخار ہیمرجک بخار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جس سے انسانی دماغ متاثر ہوتا ہے۔ یہ ڈینگی شاک سینڈروم کہلاتا ہے۔ ایسی صورت میں خون کے پلیٹلیٹ خلیوں کی تعداد میں شدید کمی ہو جاتی ہے۔ جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں سے لئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر سے دسمبر 2019 تک ڈینگی کے کیسز کی تعداد 53٫498 تھی جن میں سے 95 افراد لقمہ اجل بنے۔ جبکہ جنوری 2021 سے 25نومبر تک 48,906 کیسز رجسٹر ہوئے اور 183 افراد لقمہ اجل بنے۔ ڈینگی کی بڑھتی ہوئی صورتحال میں حکومت کی جانب سے کئی اقدامات کئے گئے۔ جن میں ہنگامی امدادی کیمپ، ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈ کا قیام، بستروں میں اضافہ، اضافی عملے (نرسوں) کی تعیناتی، ناکارہ ڈسپنسریوں کو نئے سرے سے فعال کرنا شامل تھا۔ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے اسے سنجیدگی سے دیکھا گیا اور لاکھوں مچھر دانیاں اور مچھر مار اسپرے کرنے والی مشینیں ، ٹیسٹنگ کٹس اور وبائی امراض کے ماہرین پاکستان بھیجے گئے۔

دوہزار دس کے بعد تواتر سے پاکستان میں ڈینگی وائرس کو وبائی صورت اختیار کرتے دیکھ رہے ہیں اگر حکومت حفاظتی اقدامات مون سون کے آغاز سے قبل کر دے تو اتنی قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔آنے والے سال کے لئے کرونا اور ڈینگی دونوں سے نبٹنے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ حکومت اور عوام دونوں مل کر مختلف وباؤں پر قابو پائیں گے۔