افغانستان کا انسانی المیہ اور او آئی سی

برادر مسلم ملک افغانستان کو درپیش سنگین انسانی مسائل اور معاشی مشکلات کے حوالے سے پاکستان کی میزبانی میں اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس یقینا ایک تایخ ساز اقدام ہے جس تین روزہ او آئی سی(اسلامی تعاون کونسل) منعقدہ کانفرنس میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ افغان بحران کے حل کے لئے عالمی برادری آگے بڑھے۔ واضح رہے کہ او آئی سی اجلاس سعودی عرب کے کہنے پر بلایا گیا تھاجو او آئی سی سربراہی اجلاس کا موجودہ صدر ہے۔

آج سے41 سال قبل وزرائے خارجہ کونسل کی 1980ء میں اسلام آباد میں پہلا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا تھا اس وقت بھی افغانستان کی صورتحال پر غور ہوا تھا۔اجلاس میں افغانستان کے انسانی المیے اور بحران کو روکنے کے لئے عالمی برادری سے تعاون پر زور دیا گیا۔ او آئی سی نے افغانستان کی مدد کے لئے اسلامی ترقیاتی بینک کے زیر اہتمام ہیومنٹرین ٹرسٹ فنڈ کا قیام اور افغان تحفظ خوراک پروگرام کے آغاز کا بھی اعلان ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغان بحران کی صورت میں شدت پسند تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ امریکہ کو اب افغان عوام کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دنیا کو افغانستان میں جنم لینے والے بڑے انسانی المیہ کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے تعاون پر زور دیا۔ اجلاس میں منظور کردہ متفقہ قرار داد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنے گی۔ انتہا پسندی، دہشتگردی عدم استحکام کو فروغ ملے گا۔ جس کے سنگین نتائج، علاقائی و بین الاقوامی امن و استحکام پر پڑیں گے۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ انسانی امداد یا اقتصادی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ امید ہے کہ یہ اجتماع نشستند ،گفتند ، برخاستندجیسا نہیں ہو گا۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق افغانی عوام کی نصف آبادی کو بھوک کا سامنا ہے3.2 ملین بچے شدید غذائی وقت کا شکار ہیں اور 97 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ملک میں 20 سال خانہ جنگی رکھ کر اسے تباہ حال کر دیا۔ اس کے باوجود شکست خوردہ امریکہ نے خود افغانستان کے اربوں روپے مالیت کے اثاثے پر قبضہ جما رکھا ہے جو سفاکیت و بربریت کی بدترین مثال ہے اگر آج دنیا نے افغانستان کا ساتھ نہ دیا تو یہاں دہشتگردی کو فروغ ملے گا جس سے امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ بلاشبہ او آئی سی اجلاس افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں نقطہ آغاز ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اسلام آباد اجلاس افغانستان کے مستقبل کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان کی صورتحال انتہائی نازک موڑ پر آن پہنچی ہے اور پاکستان ہر ممکن طور پر افغان بھائیوں کی مدد کے لئے کمربستہ ہے۔ لیکن یہ بھی واضح رہے کہ ہمیں سب سے پہلے پاکستان کے معاشی و اسٹریٹجک مفادات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ہمیں اس وقت داخلی و خارجی مسائل بھی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور ان سے نبرد آزما ہونا حکومت وقت کے لئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر ایک افغانی المیے پر متوازن پالیسی تشکیل دی جائے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔

افغان امن عمل میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر پاکستان ہی لے کر آیالیکن بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسے مسلسل التواء کا شکار کرتی رہیں۔بھارت اور سابق کابل انتظامیہ نے افغانستان میں امریکہ کو الجھا کر اس کی کمزوری کاخوب فائدہ اٹھایاہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں تعمیر نو کے مختلف پروگرامزکے لئے مختلف مراحل میں قریباً 134 ارب ڈالر کی منظوری دی گئی لیکن ان منصوبوں کا جب جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کل بجٹ کے 30 فیصد یعنی 63 بلین کے اخراجات میں سے 19 بلین ڈالرزکرپشن کیلئے ناجائز استعمال پر خرچ کئے گئے صرف جنوری 2018 ء سے دسمبر 2019 ء تک تقریباً1.8 ارب ڈالرز فراڈمیں ضائع ہوئے۔2008ء میں امریکی حکومت نے ایک ادارہ ’’اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘‘ قائم کیاجس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ نظر رکھے کہ افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں پر لگنے والی رقم کیسے اور کیونکر خرچ ہورہی ہے؟۔

امریکی ادارے کی رپورٹ میں بھی افغانستان کی تعمیر نو کے لئے ملنے والے2.4 ارب ڈالرز پر شب خون مارنے کے حوالے سے ہوشربا انکشافات منظر عام پر آئے ۔امریکی آشیر باد پر مودی کاایرانی بندرگاہ ’’چاہ بہار‘‘میں اربوں ڈالرز مالیت کے دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی ترقی وخوشحالی اورخطے میں چین کی بالادستی کو نقصان سے دوچار کرنا تھاکیونکہ بیجنگ جہاں ایک طرف سرمایہ کاری، تجارت اورسفارتکاری کے ذریعے دنیا بھر میں ذرائع آمدو رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھارہا ہے کہ جس سے ہر ایک پالیسی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے تو وہیں دوسری طرف وہ افغانستان کو ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے میں شامل کرکے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔

افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیاء کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ مزید بدامنی کی صورت میں دنیا کا تقریباً کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا ۔افغان جنگ کے دوران پاکستان کے 80 ہزار سے زائد شہری شہید جبکہ معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچالہٰذا وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دو ٹوک فیصلہ کیا اسے پاکستانی ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک بھی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611 کلو میٹر طویل سرحد ہے لہٰذا مزید بدامنی یا خانہ جنگی کی صورت میں افغان پناہ گزینوں کاجو دباؤ بڑھے گااس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ایسے میں عالمی برادری کو محض بیانات پر ہی اکتفا نہ کرکرتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے بھرپور مدد کرنا ہو گی کیونکہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو افغانستان کا عدم استحکام صرف پاکستان کے لئے ہی مسائل کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہوں گے۔ کیونکہ نہ افغانستان میں امن و انصاف کا قیام خطے کے پائیدار امن و استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔