آئی ایم ایف کا لکڑہارا اور شیرپاکستان

ایک جنگل میں اچانک شیر کی نظر ایک بلی پر پڑی۔ بلی کو دیکھ کر شیر حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ شکل و صورت میں تو بالکل اسی کے جیسی ہے لیکن اتنی چھوٹی سی کیوں ہے۔ بلی بھی شیر کو دیکھ کر بہت خوف زدہ ہو گئی کیوں کہ اس نے اتنا بڑا بلا کبھی دیکھا نہیں تھا۔ بلی شیر کو اور شیر بلی کو گھورے جا رہے تھے۔ شیر نے حیرت زدہ آواز میں بلی کو مخاطب کر کے کہا کہ لگتی تو تم میرے خاندان کی ہو لیکن اتنی چھوٹی سی کیوں ہوں۔ شیر کی آواز میں اپنائیت پاکر بلی کو حوصلہ ملا تو وہ شیر ہو گئی۔ کہنے لگی کہ تم ٹھیک ہی سمجھے۔ میں رشتے میں تمہاری خالہ ہوں لیکن میرا مالک بہت ظالم ہے۔ ایک طویل مدت سے نہ تو وہ مجھے میری بھوک کے مطابق کھانے کو دیتا تھا اور نہ ہی پینے کو۔ رات دن مجھے ڈنڈوں سے مارتا رہتا تھا جس کی وجہ سے میں اتنی منی سی ہو کر رہ گئی۔

شیر کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا اور دھاڑ کر کہنے لگا کہ تمہارا مالک کون ہے۔ بلی نے کہا کہ تم میرے مالک کے ساتھ کیا کرو گے۔ اس نے کہا کہ جس نے میری خالہ کا یہ حشر کر کے رکھ دیا ہے میں اسے زندہ نہ چھوڑوں گا۔ اتنے میں ایک لکڑہارا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بلی کو آتا دکھائی دیا۔ بلی نے اس کی جانب اشارہ کرکے کہا، وہ آرہا ہے ہے میرا مالک۔ جیسے ہی لکڑہارا اس کے قریب آیا شیر نے اس کا راستہ روک لیا۔ لکڑہارے نے پوچھا کہ بادشاہ سلامت کیا بات ہے۔ شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا، سنا ہے تم میری خالہ کو نہ تو کھانے کو پورا دیتے تھے اور نہ ہی پینے کو، بس رات دن ڈنڈوں سے مارتے ہی رہتے تھے جس کی وجہ سے وہ ذرا سی ہو کر رہ گئی۔ لکڑہارا پہلے ہی بلی کو دیکھ چکا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ بلی نے ہی شیر کو بھڑکا یا ہوگا۔ شیر کی بات سن کر اس نے شیر سے کہا کہ اگر یہ سچ بھی ہے تو تم کیا کرو گے۔ شیر نے کہا کہ میں تیری بوٹیاں بوٹیاں کر دونگا۔ لکڑہارے نے نہایت ادب سے شیر سے کہا کہ تم جنگل کے باد شاہ ہو۔ میں اپنی روزی کیلئے لکڑیوں کا گٹھر بازار لے جا رہا ہوں۔ مجھے اتنی مہلت دو کہ میں اس کو بیچ آؤں پھر میں واپس آکر تم سے مقابلہ کرونگا۔ شیر نے شاہی انداز میں کہا، جاؤ میں یہیں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

لکڑہارا کچھ قدم آگے جاکر واپس آیا اور کہا کہ مجھے شک ہے کہ تم مجھ سے ڈر کر بھاگ جاؤ گے اس لئے کیوں نہ میں تمہیں رسی کے ساتھ درخت سے باندھ جاؤں۔ شیر نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ لکڑہارے نے شیر کو ایک درخت کے ساتھ خوب اچھی طرح جکڑ دیا اور لکڑیاں اٹھا کر جانے لگا۔ اچانک اس نے لکڑیوں کا گٹھر سر سے پھینکا اور اس میں سے ایک موٹی لکڑی منتخب کرکے شیر کی وہ پٹائی شروع کی کہ الاماں الحفیظ۔ مار کھا کھا کر شیر بے ہوش ہوجاتا۔ پھر ہوش میں آتا تو لکڑہارا پھر اس کی پٹائی شروع کر دیتا۔ صبح سے شام ہو گئی اور لکڑہارا اس کی پٹائی پر پٹائی کرتا رہا۔ رات میں شیر کو ہوش آیا تو دیکھا کہ لکڑہارا تو وہاں موجود نہیں تھا لیکن بلی کو اس نے اپنے قریب بیٹھے پایا۔ شیر نے بلی کو دیکھا تو کہنے لگا کہ تیرا مالک واقعی بڑا ہی ظالم ہے۔ مجھے مارے چلے جا رہا ہے مگر کھانے پینے کو کچھ بھی نہیں دے رہا۔ لگتا ہے جب تک وہ مجھے تیرے برابر نہیں کر لے گا اس وقت تک وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔

انتہا درجے کی مہنگائی اور نہایت خوفناک انداز میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باوجود وزیرِ اعظم کا مسلسل یہ فرمائے چلے جانا کہ پاکستان اب بھی دنیا کے سستے ترین ملکوں میں سے ایک ہے، لکڑہارے اور شیر کی کہانی جیسا ہی ہے۔ لگتا ہے کہ جب تک موجودہ حکومت پاکستان کو یو گینڈا اور صومالیہ بنا کر نہیں رکھ دے گی اس وقت تک رات دن مہنگائی کے بم برساتی رہے گی جس کا سب سے بڑا ثبوت آئی آیم سے قرض حاصل کرنے کیلئے اس کی تمام شرائط مان لینے کا اعلان ہے۔ خبروں کے مطابق “مشیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت 12 جنوری سے قبل آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرے گی۔ جیو نیوز کی ایک ر پورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت منگل28 دسمبر کو ترمیمی فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر قرض کی قسط ترمیمی فنانس بل سے مشروط ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل بھی فنانس بل کے ساتھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ دوسری جانب مشیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین کا کہنا ہے کہ 12جنوری کو آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں چھٹی جائزہ رپورٹ پیش کی جائے گی، پاکستان 12 جنوری سے قبل آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرے گا، ترمیمی فنانس بل میں350 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس لی جائے گی۔ اس حوالے سے ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ ترمیمی فنانس بل اسمبلی سے پاس کرانا ضروری ہے لہٰذا ترمیمی فنانس بل آرڈیننس سے نافذ نہیں ہو گا”۔

مہنگائی اور بے روزگاری کی جو صورت حال ہے وہ پاکستانی عوام کے پہلے ہی سامنے ہے۔ اب اس بات کا اندازہ لگانا کوئی دشوار نہیں کہ کہ اس منی بجٹ کے بعد پاکستان کے عوام کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف کا لکڑہارا شیر کو اپنی شرائط کے سحر میں اچھی طرح جکڑنے کے بعد دن رات مہنگائی کے کوڑے مار مار کر جب تک یوگینڈا اور صومالیہ نہیں بنا ڈالے گا وہ پاکستان کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔