خلا میں چہل قدمی

انسان ہمیشہ سے خلا کی کھوج کے حوالے سے متجسس رہا ہے اور مختلف ادوار میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلا کے رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکے۔اسی مقصد کی خاطر  آج بھی دنیا کے چند  ممالک کی جانب سے خلائی مشنز بھیجے جا رہے ہیں جن سے بلاشبہ انسانیت کے لیے بے شمار ثمرات کا حصول ممکن ہوا ہے۔زمین پر چہل قدمی یا واک تو ہماری روزمرہ عادت ہے مگر خلا میں چہل قدمی اب خواب نہیں رہا بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں چین نے اعلان کیا کہ اُس کے دو خلا باز دوسری مرتبہ اپنے خلائی کیپسول سے باہر نکلتے ہوئے چہل قدمی کریں گے اور اس دوران مختلف تجربات بھی کیے جائیں گے۔ چین کے انسان بردار خلائی ادارےکےمطابق خلائی مشنشینزو 13 کے دوخلاباز 26 دسمبرکو دوسری مرتبہ اپنے خلائی کیپسول سےباہرنکلیں گے جبکہ اُن کی تیسری ساتھی خاتون خلا باز اپنے کیبن میں ہی موجود رہیں گی ۔

شین زو 13 کے تینوں خلاباز مسلسل71 روزسےخلامیں موجودہیں۔اس دوران7 نومبر کو انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے کیپسول سےباہرنکلتےہوئےمختلف امورسرانجام دیےمثلاًمدارمیں طبی معائنہ،خلائی تجربات (ٹرائلز)،خلائی اسٹیشن کےپلیٹ فارم کامعائنہ اور یومیہ دیکھ بھال وغیرہ۔اس دوران اُن کی جانب سے ہنگامی انخلاءاورطبی بچاؤجیسےموضوعات پرتربیت کاانعقاد بھی  کیا گیا جبکہ خلائی جستجو کی تاریخ میں چین نے پہلی مرتبہ کسی خلائی اسٹیشن سے خلائی تدریسی سرگرمیوں کی شروعات سے ایک نیا باب بھی رقم کیا۔تینوں چینی خلا بازوں کی جانب سے  9 دسمبر کو دیے گئےپہلے خلائی لیکچر  کو نہ صرف چین کے مختلف حلقوں بلکہ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی اور  ائیرو اسپیس میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے بھرپور سراہا۔یہ بات اچھی ہے کہ تینوں خلا باز اکہتر روز بعدبھی بہترین جسمانی حالت میں ہیں اورخلائی اسٹیشن بھی مستحکم طور پر کام کر رہا ہے۔

خلائی شعبے میں چین کی کامیابیوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو 2003میں چین کا پہلا خلا باز ، خلا میں پہنچا تھا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک چین کی انسان بردار خلائی تحقیق کو بیس سال ہو  چکے ہیں ۔اس دوران متعدد  چینی خلا باز ، خلا میں جا چکے ہیں ۔انسان بردار خلائی ٹیکنالوجی کی ترقی کے علاوہ، گزشتہ چند سالوں میں چینی ڈیٹیکٹرچاند اور مریخ کی سطح  پر کامیابی سے اتر چکا ہے  ، عالمی سیٹلائٹ نیوی گیشن سسٹم کی تعمیر کی گئی ہے  یہاں تک کہ سورج  سے متعلق بھی تحقیقی کوششیں شروع ہو چکی ہیں ۔ خلائی شعبے میں چین کی ترقی حکومتی سطح سے انفرادی سطح تک ، سائنسی اور تکنیکی ترقی کو فوقیت دینے کی مظہر ہے ۔

یہاں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ  کسی بھی خلا باز کے لیے خلائی تحقیق ہر گز آسان نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی کٹھن اور دشوار کام ہے۔ خلائی کیپسول کے  استعمال کے لیے خلابازوں کوانتہائی اعلیٰ معیار کی صلاحیت  کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ خلابازوں کو سخت تربیتی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔عام طور پر خلا بازوں کے لیے ایک سال سے زائد کی خصوصی تربیت لازم ہے ۔ اس میں جسمانی اور ذہنی تربیت کے علاوہ ایرو اسپیس پیشہ ورانہ تکنیکی تربیت بھی شامل ہے  تاکہ وہ خود  کو بہتر طور پر  خلا کے خصوصی ماحول میں ڈھال سکیں اور ساتھ ساتھ وہاں ہائی ٹیک تجربات بھی کر سکیں ۔ حالیہ برسوں میں، چین نے خلابازوں کے لیے خلائی ماحول کو بہتر بنانے کی خاطر بھرپور کوششیں کی ہیں۔ خاص طور پر 2021 میں چینی خلائی اسٹیشن کی تعمیر کے بعد ان کوششوں میں مزید  تیزی آئی ہے۔

ان کوششوں میں خلا بازوں کے لیے کھانے کی بہتری بھی شامل ہے۔ خلائی مشن کے دوران خلائی اسٹیشن  میں  تینوں خلابازوں کے لیے 120 سے زائد اقسام کے پکوان تیار کئے گئے ہیں ۔کھانوں کے علاوہ باورچی خانے کے آلات اور گھریلو سامان کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ، اس لیے چینی خلا بازوں کے پاس  اسپیس ایئر کنڈیشنر، اسپیس فریج، مائیکرو ویو اوون، واٹر ڈسپنسر اور فولڈنگ ٹیبل سب کچھ  موجود ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ  خلا بازوں کی رہائشکو بھی نمایاں حد تک بہتر  بنایا گیا ہے۔ ہر خلا باز کے لیے ایک ہاسٹل کی مانند  آرام کرنے کا ایک کمرہ موجود ہے ۔   خلائی اسٹیشن پرغسل سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ مختلف فٹنس آلات بھی موجود ہیں جس سے خلائی اسٹیشن پر خلا بازوں کی زندگی کو  کرہ ارض پر زندگی کی مانند بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئیہے ۔

چین کی کوشش ہے کہ خلائی شعبے میں اپنی ترقی کا تبادلہ دیگر دنیا سے بھی کیا جائے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے ہمیشہ اس عزم کا اظہار کیا کہ چین  عالمی برادری کے ساتھ خلا کی  جستجو اور ترقی کے لیے  تعاون پر آمادہ ہے تاکہ خلائی تحقیق کی کامیابیاں بنی نوع انسان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خدمات انجام دے سکیں ۔ اس کا ثبوت یہی ہے کہ چین نے خلائی تحقیق کے حوالے سے 17 ممالک کے  پیش کردہ درجنوں منصوبوں کو منتخب کیا ہے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چین خلائی اسٹیشن پر خلائی تجربات کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ  بھی تعاون  کر رہا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے جلد ہی پاکستان بھی خلائی تحقیقی میدان کے ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر ابھرے گا۔