قائدمحمد علی جناح کا نوجوان اور آج کا نوجوان

محمد علی جناح، ایسی شخصیت جن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے- ان کی انتھک کوششیں اور جدوجہد کا پھل آج یہ قوم کھا رہی ہے- کہا جاتا ہے کہ یہ ملک اللہ کی کشتی ہے جسے اللہ باری تعالیٰ خود چلا رہے ہیں ورنہ اب تک، اتنی قربانیوں سے حاصل کئیے گئے وطن کو کس کس نے کیسے کیسے نوچ کھسوٹ کر کھایا ہے- اس کے باوجود یہ قائم و دائم ہے-

راہنما , لفظ کا معنی سمجھنے کی کوشش کی جائے تو وہ انسان جو راہ دکھائے، سیدھی اور سچی راہ جہاں سے بہتری کا راستہ نظر آئے- اس سانچے میں اگر کسی کو پرکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں راہنما کے طور پر آئیڈئیل محمد علی جناح کی شخصیت ابھرتی ہے-”ہم ہمیشہ اپنے نوجوانوں کا مستقبل نہیں بنا سکتے، لیکن ہم اپنے نوجوانوں کو مستقبل کے لیے تعمیر کر سکتے ہیں۔”

فرینکلن ڈی روزویلٹ

نوجوان کی سوچ، اس کے افکار اور اس کی شخصیت ملک و قوم کے مستقبل کی ضامن ہے- ایک نوجوان کی سوچ جتنی تعمیری اور بامقصد ہو گی- با شعور اور مسائل کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوگا، فکر و مشاہدہ جتنا گہرا ہوگا اتنی ہی اس کی شخصیت بہتر ہوگی- بصورت دیگر ملک کا مستقبل تنزلی کا شکار ہوگا-

کہا جاتا ہے کہ نوجوان کے لئیے فکر اور تجربہ ورثے میں دینا چاہئیے نہ کہ صرف تنقید کیونکہ ایک بہتر قوم بہتر سوچ اور عمل سے بنتی ہے- کسی بھی قوم کے نوجوان اس کا اہم ستون ہیں-یہی وجہ ہے کہ قائد نے نوجوانوں کی تعلیم، ان کی شخصیت اور ان کے کردار پر بہت زور دیا ہے-قائد اعظم کو نہ صرف نوجوان طلباء سے انسیت تھی بلکہ ان سے بہت امیدیں وابستہ رہیں-(1937ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبالؒ اور جناحؒ بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا‘‘

ہمارا آج کا نوجوان اپنا وقت کہاں برباد کر رہا ہے- یہ اور بات ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی تعمیری سے ذیادہ تنقیدی پہلوؤں پر ذیادہ زور دیتا ہے- آج کے نام نہاد ماڈرن ازم نے نئی نسل کی تربیت میں جس طرح کا خلا پیدا کر دیا ہے اگر اس حوالے سے قائد کے اقوال کا مطالعہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ کیسے وہ نہ صرف طلباء کی تعلیم بلکہ ان کی فرمانبرداری اور بہتر تربیت کے بھی قائل تھے-

ایک موقع پر کہا، ’’آپ کو یاد ہوگا میں نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں۔ اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا‘‘

آج کا نوجوان جس طرح پستی کا شکار ہے- اور اپنی اس تنز لی کو سازش کا نام ٓاسانی سے دے دیا جاتا ہے- کسی حد تک یہ معاشرہ اور اس کے بزرگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں کہ ہمارا جوان جو غلط راستوں کو درست سمجھ کر, اس پر چھوڑے ہوئے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلتا چلا جا رہا ہے- اس بات پر غور کئیے بغیر کہ یہ قدم اسے کس جانب لے جا رہے ہیں- نئی نسل کی تعمیری، اصلاحی اور خاص طور پر اخلاقی تربیت میں بہت بڑی بڑی کوتاہیاں ہوئی ہیں- اس معاشرے نے والدین کو بنیادی ضروریات میں اتنا الجھا دیا کہ وہ بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کر نے بعد ہی اس قدر نڈھال ہوگئے کہ ان کی شخصیت کی تعمیر میں کس قدر کوتاہی برتی گئی یہ سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں نکال پائے-

محمد علی جناح کے فرمان پر غور کیا جائے تو وہ نوجووان نسل کو صحیح معنوں میں دین کا پیروکار دیکھنا چاہتے تھے- ان کی خواہش تھی کہ یہ نسل اسلام کی روح کو سمجھے، اولیا کرام کی تعلیمات کو پڑھے اور ان کی زندگیوں کو اپنی زندگی کے لئیے مشعل راہ بنائے- سب سے بڑھ کر، سرور کائنات، معلم عالم، رحمت اللعالمین، محبوب خدا، حضرت محمد ﷺ کے سکھائے ہوئے راستوں پر چلے – ان کی تعلیمات کو نہ صرف سمجھے بلکہ ان پر عمل پیرا ہو-

آپ نے فرمایا: ”میں نے بہت دنیا دیکھ لی، اللہ تعالیٰ نے عزت، دولت، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سربلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تنظیم، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا۔”

جہد کے معنی انتہائی کوشش کے ہیں- لفظ جہاد جہد سے نکلا ہے اور ایک مومن جہاد کے لئیے ہی پیدا کیا گیا- خواہ وہ جہاد اسلام کی راہ میں ہو یا اپنے نفس کے ساتھ! خیال رہے کہ جہاد کا سب سے اعلیٰ درجہ نفس کا جہاد ہے- جس نے اس پر قابو پا لیا گویا وہ دین و دنیا پا گیا-کیا آج کے نوجوان نے اس لفظ کو صحیح معنوں میں سمجھا ہے یا دین کو من مرضی سے سکھانے والوں کی انتہا پسندی کا شکار ہوتا جا رہا ہے-

30 اکتوبر 1937 کو لاہور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا؛’’نوجوانو! اپنی تنظیم کرو۔ یک جہتی اور مکمل اتحاد پیدا کرو، اپنے آپ کو تربیت یافتہ اور مضبوط سپاہی بناؤ۔ اپنے اندر اجتماعی جذبہ اور رفاقت کا احساس پیدا کرو اور ملک و قوم کے نصب العین کے لیے وفاداری سے کام کرو۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

محسن پاکستان، تاریخ کے عظیم راہنما، دور اندیش شخصیت کے مالک، بابائے قوم کو اپنے نوجوانوں سے کیا کیا امیدیں رہیں- ان کے فرمودات کی روشنی میں مستقبل کی راہیں کھولنے کے لئیے اپنی نئی نسل کی بہترین تربیت و تعلیم و دینی سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئیے تگ و دو، ایسی خوبیاں ہیں جو قوم کو بلندی کی جانب لے جاتی ہیں- کیا آج کے نوجوان افکار و کردار میں محسن پاکستان کے فرمودات کی عکاسی کرتے ہیں؟۔