سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا “فسانہ” کیا

پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں تشکیل پاتی رہیں ان کے پاس اتنی لمبی چوڑی وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کی فوجِ ظفر موج کبھی نہیں رہی جتنی موجودہ حکومت کے پاس ہے۔ وزرا و مشیران کی اس سے بھی زیادہ طویل فہرست رکھنا بے شک کوئی ایسی بات نہیں جس کو بہت زیادہ ہدفِ تنقید بنایا جائے۔

حکومتی امور کو مختلف وزارتوں میں تقسیم کرکے ہر حکومت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ تمام حکومتی امور آسانی سے انجام کو پہنچ سکیں اور بیشمار ترجمانوں کی مدد سے عوام تک کارکردگی کو بحسن و خوبی پہنچایا جا سکے۔ بے شک وزرا کا کام بیشمار امور کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دینا اور ترجمانوں کا کام ان کے مختلف پہلوؤں کو عوام میں اجاگر کرنا ہی ہوا کرتا ہے لہٰذا اس نقطہ نظر کے مطابق اگر موجودہ حکومت کے پاس وزرا و ترجمانوں کی ایک طویل قطار ہے بھی تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا بتنگڑ بنایا جائے لیکن چالیس سے بھی زیادہ ماہ گرز جانے کے باوجود جو بات نہ صرف حیرت کا باعث بنی بلکہ عوام کیلئے نہایت رنج، دکھ اور تکلیف دہ ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ حکومت کا ہر وزیر اور ہر ترجمان اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی بجائے اب تک، علاوہ اس کے کہ وہ گزشتہ حکومتوں پر تبرے بازی کرتا رہا، اپنی ہر ناقص کارکردگی کا قصوروار گزشتہ حکومتوں ہی کو قرار دیتا رہا مگر کوئی اور کارنامہ سر انجام دیتا نظر نہیں آیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزارت عظمیٰ تک ہمیشہ “سب اچھا ہے” کی رپورٹ ہی جاتی رہی۔

ایک ایسا حکمران جس کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ 90 دنوں میں پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دیگا، 1200 دنوں سے زیادہ عرصے میں بھی ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ وہ حکمران جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو ملک کو ایسی معاشی پالیسی دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جو معاشی اعتبار سے پاکستان کو دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں لا کھڑا کرے گی اور صورت حال کو اس حد تک بدل کے رکھ دے گی کہ وہ افراد جو روزگار کے سلسلے میں برس ہا برس سے بیرونی ممالک میں مقیم ہیں وہ بھی اپنی پرانی نوکریاں چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جس طرح پاکستان کے لوگ دنیا میں جاکر نوکریاں ڈھونڈتے ہیں، بیرونی دنیا کے غیر پاکستانی پاکستان کی جانب بحری اور ہوائی جہازوں میں بھر بھر کر بھاگے دوڑے چلے آئیں گے۔

ایسے ہی بہت سارے دعوے کرنے والی اور پاکستان کی تقدیر بدل دینے والی سرکار کے سارے اہل کار، وزرا، مشیران اور ترجمانان کا ایک بے ہنگم ہجوم وزیرِ اعظم کو مسلسل یہ اطمینان دلانے میں مصروف تھا کہ پاکستان میں “سب اچھا ہے” بلکہ ہر مہنگائی کے طوفان کے جواب میں یہی سمجھاتا نظر آتا تھا کہ مہنگائی کا پروپیگنڈا صرف اور صرف اپوزیشن کر رہی ہے ورنہ تو پاکستان کا ہر فرد آج اتنا خوش حال ہے جتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا۔ وزیر اعظم کا بھی عالم یہ دیکھا گیا کہ وہ ان چالیس سے زیادہ مہینوں میں ملک میں بڑھتی مہنگائی کا درجنوں بار از خود نوٹس لینے کے باوجود وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کے اطمینان دلانے پر اس بات کو بھلا بیٹھے کہ وہ خود جانے کتنی مرتبہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس لیتے رہے ہیں۔ مہنگائی کا نوٹس پر نوٹس لیتے رہنے کے باوجود وہ اپنے ہر خطاب میں عوام سے یہی فرماتے رہے کہ دنیا کا سستا ترین ملک اب بھی پاکستان ہی ہے۔

وزیرِ اعظم کی ان ہی سوچوں اور وزرا و مشیران کی ان ہی غلط یقین دھیانیوں نے ہی پی ٹی آئی کو آہستہ آہستہ عوام میں غیر مقبول کرنا شروع کر دیا لیکن حکومتِ وقت نے نوشتہ دیوار کو مخالفین کا شور و شر گردان کر اس کی جانب توجہ دینے کی بجائے اپنی ہر نالائقی کو ماضی کی حکومتوں کے سر ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔کوئی بھی اعلیٰ تعمیر شدہ عمارت ایک ہی رات میں نہیں گر جایا کرتی بلکہ اس میں برسوں پہلے ٹوٹ پھوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ عمارت کی ٹوٹ پھوٹ پر توجہ دی جائے تاکہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہونے سے بچ جائے۔

ان چالیس مہینوں میں عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو صاف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے عوام کی موجودہ حکومت سے مایوسی کا اظہار ملک میں ہونے والے ضمنی الیکشنوں میں سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے سروے بھی حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجاتے دکھائی دے رہے تھے لیکن حکومت نہ جانے کیوں اس جانب توجہ دیتی نظر نہیں آئی۔ اس لاپرواہی اور بے جا اطمینان کا نتیجہ کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں موجودہ حکومت کیلئے ایک بہت بڑے دھماکے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہی نہیں بلکہ وہی وزرا و مشیران جو کل تک وزیرِ اعظم کو یہ سمجھاتے رہے تھے کہ مہنگائی صرف صرف اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے، آج وہی سب الیکشن ہار جانے کی بڑی وجہ مہنگائی ہی کو قرار دیتے نظر آئے۔

ہار اور جیت میرے نزدیک کوئی اتنی بڑی بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ عوام کے سامنے سچ لایا جانا ان سب باتوں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اتنے بڑے اپ سیٹ کے باوجود عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے وزرا اب بھی عمران خان کو اطمینان دلانے میں مصروف ہیں اور بھونڈی قسم کی تاویلات کے ذریعے انھیں یہ یقین دلا رہے ہیں کہ آپ آج بھی پورے پاکستان میں مقبول ہیں اور جنرل الیکشن میں لوگ اب بھی دیوانہ وار آپ ہی کے نمائندوں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ ایسے حالات میں میرا مشورہ عمران خان کیلئے یہی ہوگا کہ وہ کسی کی باتوں میں آئے بغیر اس بات کا خود جائزہ لیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔

“سنیے ذرا” جہاں میں ہے “خود” کا فسانہ کیا

کہتی ہے “ان” کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔