دین اسلام کی اساس صبر اور نماز‎

“اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لو۔ (سورة بقرة آیت نمبر 153)

تحویل قبلہ کے بعد اور امت مسلمہ کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت دینے اور ایسا تشخص عطا کرنے کے بعد ” جو اس امت کے ممتاز نظریہ حیات کے ساتھ مناسب تھا” مسلمانوں کو پہلی ہدایت یہ دی گئ کہ وہ صبر اور نماز سے مدد لیں کیونکہ انہیں ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئ ہے ، یہ منصب بڑی قربانیاں چاہتا ہے ۔ شہداء کو خون پیش کرنا ہوگا۔ جانی نقصان، مالی نقصان ، متاع و ثمرات کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔وہ بھوک کے دن دیکھیں گے اور خوفناک راتوں سے دوچار ہوں گے۔اس کے علاوہ بےشمار قربانیوں کے لیے انہیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔

انہیں اپنے نفس سے اس پوری دنیا سے اسلامی نظام کے قیام کے لیے جہاد کرنا ہوگا۔ اس عظیم جہاد کی خوفناکیوں کا مقابلہ کرنا ہوگااور یہ مقابلہ اور تیاری اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اہل ایمان صبر و نماز سے مدد حاصل کریں ۔امت مسلمہ کو اپنا دل اللہ سے جوڑنا ہوگا۔اپنے قلوب کو اللہ کے لیے خالص کرنا ہوگا۔

قرآن پاک میں صبر کا ازحد زکر آیا ہے۔اس لیے کہ تحریک اسلامی کو سخت ترین مخالفتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا تھا۔اللہ پاک کے علم میں تھا کہ اس راہ میں صبر و استقامت کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کو مسلسل مشکلات اور لگاتار کشمکشوں کا مقابلہ کرنا تھا لہذا اس بات کی ضرورت تھی کہ اہل ایمان صبر سے کام لیں اور ان کے نفوس داخلی وخارجی معاملات میں بیدار رہیں۔ اہل ایمان کی قوتیں منظم رہیں اور ان کے اعصاب پختہ رہیں۔ ایسے حالات میں صبر و استقامت کے سوا چارہ کار ہی کیا ہے ؟ اس طرح عبادت میں بھی صبر کی ضرورت ، گناہوں سے بچنے میں بھی صبر کی ضرورت غرض ان مختلف النوع سازشوں کے خلاف صبر ،نصرت خداوندی کی تاخیر پر صبر، طویل تر جدوجہد پر صبر، باطل کی قوت پر صبر، دین کے حامیوں کی قلت پر صبر، بغض و عناد کے بوجھ پر اورغرض پرستی کی تلخی پر صبر۔

جب صبر طویل ہوجاتا ہے اور مشقت بڑھ جاتی ہے تو قوت صبر کمزور پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر بیرونی امداد میسر نہ ہو تو پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا ہے ، اس لیے نماز کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی کی جارہی ہے ۔ نماز وہ سرچشمہ ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ یہ وہ زادراہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ منبع تجدید اور قوت کا سامان ہے۔ نماز سے صبر کی بھرپور طاقت حاصل ہوتی ہے اور صبر کےساتھ رضامندی و خندہ پیشانی اور یقین محکم پیدا ہوتا ہے۔

انسان فانی ہے، ضعیف ہے اور محدود قوت کا مالک ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قوت کبری سے لو لگائے جب اس کا مقابلہ شر کی ظاہری اور باطنی قوت سے ہو اور معاملہ اس کی محدود قوت برداشت سے بڑھ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس” عظیم قوت نماز” سے مدد لے ۔اس راہ میں ایسے مقامات آتے ہیں کہ خوہشات نفس کا زور ہو جاتا ہے ، طمع و لالچ کی شدید کشش ہوتی ہے اور راہ حق پر استقامت کی جدوجہد بھاری ہوجاتی ہے، فسق و فجور اور ظلم و عدوان کی قوتیں زور پکڑ لیتی ہیں اور مقابلہ دشوار ہوجاتا ہے، اور زندگی کے شب و روز تاریک نظر آنےلگتےہیں۔

انسان غور کرتا ہےاور دیکھتا ہے کہ ابھی تک وہ کسی مقام تک نہیں پہنچ سکا، لیکن موت قریب ہے اور زندگی کا سورج قریب الغروب ہے اور شر دھنی ہوئ روئ کی طرح پھولا ہوا ہے اور حق کا پھیلاؤ کم ہے ۔ مبزل دور ہے ، افق پر سے آخری شاع امید غائب ہے اور راستے پر کوئ نشان راہ نہیں ہے ۔ایسے حالات میں صبر اور نماز ہی سر چشمہ قوت ہوتے ہیں۔

ایسے مقامات اور ایسی منازل ہی پر نماز کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے ۔ انسان فانی اور خدائے باقی کے درمیان براہ راست رابطہ نماز سے قائم ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس پر ایک تنہا قطرہ ابدی سرچشمہ سے آ ملتا ہے۔ یہ اللہ کے ان خزانوں کی کنجی ہے جو مستغنی کر دیتے ہیں،جھولی بھر دیتے ہیں اور رحمتوں کی بارش کردیتے ہیں ۔ نماز وہ جست ہے جس کے ذریعےسے انسان اس چھوٹی اور محدود دنیا کی حدود پھلانگ کر عظیم تر کائنات کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے ۔نماز سخت گرمی اور تپتی ہوئ دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں ہے، نسیم سحر اور خوشگوار شبنم ہے ۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب پریشان ہوتے تھے اور سخت حالات سے دوچار ہوتے تو نماز کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ایسے مقامات اور ایسی منازل ہی پر نماز کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ اسلامی نظام دراصل عبادت اور بندگی کا نظام ہے۔ اس کی عبادت بھی حکیمانہ ہے اور یہ وہ زادراہ اور روحانی امداد کا سرچشمہ ہے کہ جب بھی انسان مصیبت میں مبتلا ہو یا اس کا دل تنگ ہو تو یہ عبادت کشادگی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور انسان آرام،خندہ پیشانی اور خوشگواری سے اس مصیبت کو گزار لیتا ہے۔

اقامت دین کی جدوجہد میں کامیابی کا انحصار اللہ پاک نے دو چیزوں پر رکھا ہے: صبر اور نماز۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے اندر اقامت دین کی جو جدوجہد شروع کی ،اس میں اپنی قوم کو ان ہی دو چیزوں سے مدد حاصل کرنے کو کہا۔ اللہ نے فرمایا “اور موسیٰ نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ اللہ سے مدد مانگو اور ثابت قدم رہو۔”(سورة الاعراف 128)،اسی طرح مسلمانوں نے جب اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد شروع کی اور اس راہ کی آزمائشوں سے دوچار ہوئے تو انہیں بھی صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے نصیحت کی گئ۔

یہی صبر اور نماز کی قوت اللہ پاک نے مسلمانوں کو عطا فرمائ جس کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسلامی انقلاب برپا کیا۔..اللہ پاک آج کے مسلمانوں کوصبر کی طاقت اور نماز کی قوت عطا فرما دےکہ باطل قوتوں کا خاتمہ ہوجائے۔

آمین یا رب العالمین