کھیلوں پر سیاست سے گریز

جوں جوں بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 نزدیک آتے جا رہے ہیں اُسی قدر سرمائی کھیلوں کے شائقین اور کھلاڑیوں کی دلچسپی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔چین کی جانب سے تمام تیاریوں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

دوسری جانب متعدد عالمی شخصیات بھی سرمائی اولمپکس میں شرکت کریں گی۔عام طور پر مختلف ممالک کے رہنماؤں کو ان کی اپنی اپنی اولمپک کمیٹیوں کی جانب سے اولمپک گیمز میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے،جس کے بعد بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے تحت اُن کا اندراج کیا جاتا ہے۔ تاحال مختلف ممالک کے اعلیٰ رہنماوں کی ایک بڑی تعداد اور شاہی افراد نے بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لیے اپنا اپنا اندراج کروایا ہے،جبکہ چین کی جانب سے اُن کی سرمائی اولمپکس میں دلچسپی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی جانب سے بیجنگ سرمائی اولمپکس میں شرکت کی دعوت قبول کی ہے۔ایک جانب تو بیجنگ سرمائی اولمپکس کی کامیابی کے لیے دنیا کی نیک تمنائیں سامنے آ رہی ہیں مگر دوسری جانب امریکہ سمیت چند مغربی ممالک نے اس اہم سرگرمی کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا ہے۔تاہم ایسے ممالک کو اپنے دیگر ہم عصر ممالک کی حمایت حاصل نہیں ہے مثلاً فرانس کی ہی مثال لی جائے تو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے واضح کر دیا کہ وہ ”غیر معمولی” بائیکاٹ میں مشغول ہونے کے بجائے دنیا بھر کے ایتھلیٹس کے تحفظ پر بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

میکرون نے کہا کہ ہمیں اولمپکس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔حقائق کے تناظر میں کھیلوں پر سیاست، اولمپک چارٹر کی روح سے سنگین انحراف ہے۔یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کے مرکزی کردار مختلف ممالک کے کھلاڑی ہیں، انفرادی سیاست دان نہیں۔ ایک کامیاب اور دلچسپ اولمپک کھیلوں کے لیے ”اولمپکس خاندان” کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہر گز انفرادی ملک کے عہدیداروں کی موجودگی پر منحصر نہیں ہے۔سرمائی اولمپکس سیاسی تماشا اور سیاسی جوڑ توڑ کا اسٹیج بھی نہیں ہے۔

ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ سفارتی بائیکاٹ ان تمام کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہے جنہوں نے چار سال تک اولمپک اسٹیج پر نام پانے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ کوئی بھی ملک اگر اولمپک گیمز کو معمولی گردانتے ہوئے محض سیاسی فائدے کی خاطر کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی کرنے پر مائل ہو تو اس سے کھلاڑیوں کو انتہائی منفی پیغام جاتا ہے۔اولمپک مقابلوں کے دوران حکومتی اہلکاروں کی شرکت یقیناً اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے کیونکہ ایسا لمحہ شاید پھر کبھی کسی کھلاڑی کے حصے میں دوبارہ نہ آئے۔

ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کے طور پر چین سرمائی اولمپکس کے گرین، اشتراکی اور کھلے تصورات کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ”مزید اتحاد” کے اولمپک جذبے کا عمدہ مظاہرہ کر رہا ہے اور ایک سادہ، محفوظ اور دلچسپ اولمپک گیمز سامنے لانے کے لیے کوشاں ہے۔یوں مشترکہ طور پر بین الاقوامی اولمپک نصب العین کی پائیدار ترقی کو فروغ مل رہا ہے۔

سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ نہ صرف کھیلوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اُس اولمپک جذبے سے بھی متصادم ہے جس نے صدیوں سے بے شمار غیر معمولی یادیں تخلیق کی ہیں اور دنیا کو کھیل کے ذریعے آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ آج دنیا کو وبا سمیت درپیش دیگر مسائل کے تناظر میں کھیل ہی وہ سرگرمی

ہے جو شہروں، خطوں اور اقوام عالم کو متحد کر سکتی ہے۔کھیلوں کے مقابلے بہترین ”اسپورٹس مین شپ” کے تناظر میں مختلف طبقات، نسلوں، مذاہب اور نظریات کو بناء کسی تعصب کے اختلاط اور آپسی اختلافات کو ایک طرف رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔چاہے کسی بھی کھیل کا ورلڈ کپ ہو یا اولمپک گیمز، کھیل اور سیاست کو ایک دوسرے کے خلاف نہیں کھیلنا چاہیے۔ کھیلوں کو آزادانہ طور پر آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ یہ وہ خوشی ہے جو سماجی ہم آہنگی پیدا کر سکتی ہے۔

اگر کوئی کھیلوں پر سیاست کرتا ہے تو بلاشبہ وہ دنیا بھر کے عوام کو افہام و تفہیم کی منزل سے محروم کرتا ہے۔کھیلوں کو پل بنانا چاہیے، دیواریں نہیں، یہی کھیل کا اصل حسن ہے۔