دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں ؟

خوبصوت سےعالیشان روم میں رات  آرام کی غرض سے دُعا بیڈپر لیٹی تو دل بے چین دکھ کا احساس دکھی دل برداشت  نہ کرسکا تو آنکھوں سے  بہتےآنسو رخساروں پر عیاں تھے۔چھ سال گزرنے کے بعد بھی دعا اولاد کی نعمت  سے محروم  تھی ۔جیسے ہی اپنے شوہر ابو بکر کے آنے کی آہٹ سنائی دی دعا نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی اور جلدی  جلدی آنسوصاف کرنے لگی۔

ابوبکر ایک قابل اعتماد شخص تھا۔بینک کی جاب کے ساتھ ساتھ ایک تجارتی کاروبار میں مصروف زندگی تھا۔ضرورت زندگی کی ہر آسائش دُعا کی قدموں میں لاڈالی تھی ۔دُعا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے چینی کے عالم میں قریب آکر آنسوصاف کرتے ہوۓ بےقراری سے پوچھا ارے دُعا کیا ہوا ہے۔ سب ٹھیک تو ہے اور تم تم  رو کیوں رہی ہو ؟ بتاؤ مجھے کیا بات ہے۔

دُعاابو بکر کے سامنے بیٹھی سوال التجائی انداز میں بولی آپ مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ سب کچھ چھوڑ کر کوئی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کر لیجیے ۔ کیونکہ دُعا کو معلوم تھا اس کی یہ آسائشیں غلط ذرائع سے حاصل کی گئ ہیں ۔ جی ابو بکر ایسا کوئی کام کرلیں جس میں ہماری روحیں چین پائیں اور ہم اپنی زندگیوں میں خوش ،امن و چین کی زندگی بسر کریں۔دُعاہمارے پاس زندگی گزارنےکی ہرسہولت موجودہے۔میں کامیاب ہوں آج میرا ایک مقام ہے معاشرےمیں سر فخر سے بلند ہوتا ہے ۔لوگ مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دعا نے دکھ بھرے لہجے میں جواب دیا ۔

معاشرہ عزت کی نگاہ سےدیکھتاہے آپ کو پر میرا رب نہیں  دیکھتا دعا کا دل تڑپ اُٹھا ۔اب ابوبکرسوالیہ نظروں دعا کو دیکھ رہا تھا۔ابو بکر بولا ! کیا ہوگیا ہے دُعا کیسی  بہکی بہکی باتیں کررہی ہو۔دعا بولی ابوبکر میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ آج پڑوس میں ایک درس قرآن میں شرکت کی میں نے  مدرّسہ نےدرس قرآن میں بتایاکہ ہم جوپاکیزہ چیزیں استعمال نہیں کرتےاور حلال رزق نہیں کھاتےتو اسکی  وجہ سے ہماری زندگیوں میں فساد بھرپاہوتاہےپھر معاشرہ بگڑتااور تو اور ہماری دعائیں تک قبول نہیں ہوتی۔پاکیزہ رزق سے دور ہوکرکوئی بھی اچھا عمل یہاں تک صدقہ تک قبولیت کے درجے پر نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے غضب بالا غضب ہونے کا باعث بنتا ہے۔ایسا مال جوناجائزیا کسی کا حق مار کر لیا گا ہو۔رشوت اور سود کا مال یہ سب حرام ہیں ایسے مال سے جوبھی اچھے عمل کیےجائیں یاجو بھی لذیذ کھانےہمارے دسترخوان پر موجود ہوں سب حرام ہیں۔

دُعاکہنے لگی کہ وہ یہ بھی بتا رہی تھیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ طیّبات کھاؤ اور پاکیزہ  ذرائع سےحاصل کرو۔حرام رزق سے پرورش پانے والا جسم  جنت میں بھی داخل ہی نہیں ہوسکے گا۔پاکیزہ مال اورعمل کو ہی اللہ قبول کرتے ہیں اور اسے عمل سے رب خوش و راضی ہوتا ہےساری رحمتیں اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں زندگی آسان تر ہوتی چلی جاتی ہے۔آخرت سنور جاتی ہے۔ دعائیں منوالی جاتی ہیں۔دُعا اپنی دھن میں  گم بولی چلی جارہی تھی اور ابو بکر دل ہی دل میں اپنی کمی کوتاہی اورغلطیوں پر پشیمان ہو کرخوف خداسے آنکھوں میں آنسو لیےدُعا کو تکے جارہا تھا ۔کیونکہ آج دونوں دل میں عہدکرچکےتھے کہ آج سے ان کی زندگیاں حرام ذرایع سے دوررہے کر حلال کی جدوجہدمیں بسر ہونگی ۔ابھی رب سے دلی عہد کیے چند سال ہی گزرے تھے کہ ان کی ثابت قدمی اور دعائیں رنگ لائیں زندگی مسکرائی، سونے آنگن میں دو ننے  پھول کھل چکے تھے اور دُعا دونوں ہاتھ اٹھاۓ نعمتوں کے شکر میں رب سے سرگوشی میں  مشغول تھی۔