مظلوم فلسطینی کہاں جائیں؟؟

بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے ، یہیں معراج کے موقع پر رسول اللہ کو عالم بالا کا سفر کرایا گیا ،

پیغمبر اسلام ؐنے اعلان نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی ، اس لئے یہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے ، بعض روایتوں سے معلوم ہوا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیّدنا حضرت ابراہیم ہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی ، حضرت صالح علیہ اسلام ، حضرت یعقوب علیہ اسلام، حضرت داؤدعلیہ اسلام، حضرت سلیمان علیہ اسلام، حضرت موسیٰ علیہ اسلام، حضرت زکریاعلیہ اسلام، حضرت یحییٰ علیہ اسلام اور کتنے ہی انبیاء کرام کی حیات طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے ،

شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں ، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں ، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اوراس مسجد کی خاص اہمیت ہے۔ایک صحابیؓ نے رسول اللہ اسے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا : یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے ، یہاں آو اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے ، ان صحابی ؓ نے استفسار کیا : اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو، جو وہاں چراغ میں کام آئے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرص سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : جب حضرت سلیمان بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے دُعاء فرمائی ، اس میں ایک دُعاء ایسی حکومت کی تھی جو اپ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دُعاء یہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لئے آئے ، تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ،

رسول اللہ انے فرمایا کہ تین دعاوں میں سے دو تو مقبول ہو ہی گئی اور مجھے اُمید ہے کہ یہ تیسری دُعا جو مغفرت سے متعلق تھی ، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپؐنے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کے لئے سفر کرنا درست ہے ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ۔خلافت عثمانیہ ترکی کے دور میں ہی یہودیوں نے سازشیں بننی شروع کردی تھیں ؛ لیکن خلیفہ نے کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں دی ، بالآخر مغربی سازشوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا اور عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا ، یہ زخم بڑھتا رہا ، یہاں تک کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا ،۔

ہم مسلمانوں کی بے حسی اور بے شعوری کہ ہماری نسلوں نے تو اس واقعہ کو بھی اپنے صفحہ دل سے مٹا دیا ہے اور مسلمان حکومتوں بالخصوص عرب حکمرانوں نے اس مقدس امانت کو سونے کے طشت میں سجاکر صہیونیوں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اگر مسلمان عوام کی دینی حمیت آڑے نہ آتی اور حماس کے مجاہدین نہ اٹھ کھڑے ہوتے تو شاید فلسطین صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔اگر مسلمان اپنی صفوں میں وحدت کا ثبوت دیتے اور عالم اسلام ٹکریوں میں بٹ نہ گیا ہوتا ، قومی تعصب اور علاقائیت کے غیر اسلامی نعروں نے عرب دنیا کو چھوٹی چھوٹی مملکتوں کی صورت میں بانٹ نہ دیا ہوتا ، تو آج مسلمان اس رسواکن صورت حال سے دوچار نہ ہوتے ؛ بلکہ وہی اس سرزمین کی قسمت کے مالک ہوتے ، انسان کی طلب اور اس کی تڑپ کے اعتبار سے نصرت ِالٰہی متوجہ ہوتی ہے ،

جب انسان کا دل سچی طلب سے خالی ہو اورخدا کے بجاے ظاہری و فانی سہاروں پر انسان نے انحصار کر رکھا ہو ، تو ان کے ساتھ کیوںکر خدا کی مدد ہو سکتی ہے ؟ پہلے تو عرب ممالک پر قومیت کا ایسا نشہ مسلط ہوا کہ عرب زعماء اللہ کے نام کے بجائے عرب قومیت کے نام سے اپنے خطبے کا آغاز کرتے تھے اور مذہب کے بجائے خالص قومی مسئلہ کی حیثیت سے اس مسئلہ کو پیش کرتے تھے اور اب معاشی ترقی کے بت نے ان کو اپنا اسیر بنالیا ہے اور وہ مذہبی غیرت پر معاشی مفادات اور سیاسی فوائد کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس وقت غزہ کے نہتے اور محصور لوگوں پر ظلم کے جو پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں ،وہ درندوں کو بھی شرمندہ کرنے والا ہے، اگرچہ اس میں معصوم بچوں، عورتوں اور بہت سے نہتے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں شادیانے بجارہی ہیں؛

اب سوال یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے ان مظلوم اور نہتے بھائیوں کی اخلاقی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے ، انھیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ رسول اللہ انے ایک اْصول بیان فرمادیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اوّل اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے روکے، یعنی دل سے برا سمجھے ، اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی قدرت دیں گے ، وہ اُسے روکنے کی کوشش کرے گا۔غزہ کی آبادی تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی لمبائی 41 کلومیٹر جبکہ چوڑائی دس کلومیٹر ہے۔ اس کی اطراف بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر منسلک ہیں۔ صہیونی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے انکشاف سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت نے گذشتہ برسوں میں غزہ پٹی کے رہائشیوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنے کے لئے متعدد مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے۔جبکہ غزہ کی پٹی پر قبضے کے پہلے سالوں کے دوران مختلف صیہونی حکومتیں اس خطہ کے آبادیاتی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی آئی ہیں ،

عربی 21 نیوز ویب سائٹ نے اسرائیلی تجزیہ کار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صیہونیوں کا مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تھا جس کے لیے انھوں نے2019 ء میں غزہ پٹی کے رہائشیوں کی منظم ہجرت کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ رابطہ بھی کیا۔صہیونی حکومت کا ارادہ تھا کہ جیسے ہی کوئی بھی ملک غزہ پٹی کے تارکین وطن کو قبول کرنے اور فلسطینی پناہ گزینوں کو “اپنے نئے ملک” منتقل کرنے پر راضی ہوجائے گا تو وہ جنوب میں ایک ہوائی اڈ ہ تعمیر کریں گے جہاں سے فلسطینیوں کو دوسرے ملک میں بھیج دیں گے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف صہیونی عہدیداروں نے اس منصوبے کی تردید نہیں کی ، بلکہ صیہونی حکومت کے سابق وزیر اقتصادیات نے کہا کہ وہ غزہ پٹی سے نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کرنے پر راضی ہیں اوراس کے لیے برسوں سے کام کر رہے ہیں، اسرائیلی تجزیہ کار کے مطابق مغربی کنارے پر قبضے کے ابتدائی برسوں میں ، صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے اور انہیں ہجرت کرنے کی ترغیب دینے کے لئے بہت کوششیں کیں تاکہ وہ فلسطینی شہریوں کی موجودگی کے بغیر پوری پٹی پر قبضہ کرسکیں۔