مفاد عامہ اور رابطہ سازی کا بہترین ماڈل

 گزشتہ آٹھ برسوں کےدوران چین کے عالمی رابطہ سازی کے لیے پیش کردہ اقدام”بیلٹ اینڈ روڈ” نے بے مثال ترقی کی ہےاور اپنی مقبولیت کے اعتبار سے اسےایک شانداربین الاقوامی عوامی پروڈکٹ کا درجہ مل چکاہے۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان سمیت دیگر ممالک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے بلکہ چین کےلیےاپنےکھلےپن کووسعت دینےاوربنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیرکوفروغ دینےکےلیےایک مظہربھی بن گیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے مغربی عناصر جو ماضی میں بیلٹ اینڈ روڈ کی مخالفت کرتے تھے آج اس کی افادیت کی بناء پر معترف ہیں۔ مثال کےطورپرامریکی جریدے “نیوزویک” نے اپنی ایک اشاعت میں ” بیلٹ اینڈ روڈ ” کو ” کامیاب ترین اوربااثراقتصادی منصوبوں میں سےایک قراردیاہے۔

عالمی بینک کی جائزہ رپورٹ کے مطابق سال 2030 تک ” بیلٹ اینڈ روڈ” انیشیٹو  سے دنیا بھر میں  پچھتہر لاکھ سے زائد  افراد کو انتہائی غربت اور  تین کروڑ سے زائد  افراد کو اوسط درجے کی غربت سے نکالنے میں مدد ملے گی۔ اس انیشیٹو کے خالق کےطورپر،چین بیلٹ اینڈ روڈ کی اعلیٰ معیارکی ترقی کےلیےمسلسل کوششیں کررہاہے۔ یہاں یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ چین چاہتا ہے کہ ترقی کے ثمرات دنیا کے سبھی ممالک کی دسترس میں ہوں اور کسی ایک خطے یا کسی انفرادی ملک کی ترقی پر اجارہ داری نہ ہو۔اسی تصور کی عملی شکل بیلٹ اینڈ روڈ کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ  چینی عوام نہ صرف اپنے لیے اچھی زندگی کی امید رکھتے ہیں بلکہ پر امید  ہیں کہ دنیا  بھر کے عوام بہتر زندگی گزاریں گے۔

پاکستان سمیت دیگر ممالک کی بیلٹ اینڈ روڈ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2013 کے بعد سے اب تک 172 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے چین کے ساتھ تعاون کے  200 سے زائد  معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں متعلقہ ممالک کے درمیان مجموعی تجارت میں 9.2 ٹریلین ڈالر اور چین کی بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک میں  130 بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ابھی حال ہی میں بیجنگ میں منعقدہ تعمیراتی سمپوزیم میں چینی صدر شی جن پھنگ نے واضح کر دیا کہ بی آر آئی کا مقصد اعلیٰ معیاری، پائیدار اور عوام پر مبنی پیش رفت ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ چین کا عزم ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ  وقت کے ساتھ ساتھ مفاد عامہ میں عملی طور پر ترقی کرتا رہے گا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آغاز میں بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا کلیدی نکتہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور رابطہ سازی پر مرکوز رہا مگر  بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں اس میں جدت اور دائرہ کار کو وسعت ملی ہے۔شراکت داری کے اس بڑھتے ہوئے نیٹ ورک  میں اب ڈیجیٹل، مالیات ،ماحولیات اور صحت کی جہتیں شامل ہو چکی ہیں۔اس کا مقصد عالمگیریت کے ناگزیر عمل کو ذمہ دارانہ طور پر آگے بڑھاتے ہوئے بنی نوع انسان کے لیے ہم نصیب سماج کی تشکیل ہے تاکہ انہیں مزید متوازن، مساوی اور بہترین طرز زندگی فراہم کیا جا سکے۔ اس حقیقت کی ٹھوسبنیاد یہی ہے کہ  بی آر آئی کا آغاز  چین جیسے اُس ملک نے کیا ہے جو خود  سب سے بڑی ترقی پذیر قوم ہے ، یوں بیلٹ اینڈ روڈ کی نوعیت عالمگیریت کے سابقہ ​​ماڈل سے بہت مختلف ہے جس کی قیادت مغرب میں ترقی یافتہ ممالک نے کی تھی۔بی آر آئی کے تحت عالمگیریت اپنے مغربی پیشروؤں سے اس لحاظ سے بالکل برعکس ہےکہ یہ سامراج مخالف ہے، یہ تمام فریقوں کے درمیان رضاکارانہ معاہدوں پر انحصار کرتی ہے، یہ اشتراکی ترقی اور سودمند  تعاون کی داعی ہے  ،اس میں تعمیری شراکت کا پہلو تمام فریقوں کے لیے یکساں ہے جبکہ اس کا حتمی مقصد  اس بات سے قطع نظر کہ کوئی ملک چھوٹا ہے یا بڑا ،مساوی ترقی کا حصول ہے ۔

اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ تمام متعلقہ فریقوں کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند رہا ہے۔پاکستان میں سی پیک اس کی ایک بہترین مثال ہے۔اس کے علاوہ دیگر شراکت دار ممالک میں بھی مختلف منصوبہ جات کی بدولت عوام کا معیار زندگی مسلسل بہتر ہو رہا ہے کیونکہ دوطرفہ تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، چینی مربوط سرمایہ کاری ان ممالک کی جامع  اقتصادی صلاحیتوں کو مزید  کھول رہی ہے جبکہ مختلف تربیتی پروگرامز ان ممالک کے شہریوں کو ہنرمند اور بااختیار بنا رہے ہیں۔ ” بیلٹ اینڈ روڈ” کے اعلیٰ معیار کے ترقیاتی اہداف میں “لوگوں کی زندگی کوبہتربنانا” ایک کلیدی نقطہ ہے۔آج آٹھ سال گزرنے کے بعد  بھی اسی ہدف کی روشنی میں آگے بڑھا جا رہا ہے۔غربت سے نجات ، معاشی ترقی کا فروغ  اوربہترزندگی کی جستجو ،دنیاکےسبھی ممالک کی یکساں خواہش ہے جس کی تکمیل میں بیلٹ اینڈ روڈ ٹھوس مواقع اور امید کا پیغام بن کر سامنے آ رہا ہے۔