زندگی کا یادگار سفر

تاریخی مقامات کی سیر کا بچپن سے ہی شوق رہا ۔ اسکول ، کالجز اور یونی ورسٹی میں یہ شوق مزید پروان چڑھا جہاں اپنے ہم جماعتی طلبہ اور قابل عزت اساتذہ کرام کے ساتھ بہت سے یارگار سفر کرنے کا موقع ملا ۔ 23 اکتوبر 2021ء کو ” میجر ایوب شہید کالج باغ ” کے سنگ ” پیر چناسی ” کا یادگار سفر کرنے کا موقع ملا جس میں راقم کے ساتھ ادارہ ہذا کے صدر معلم جناب توصیف احمد ، ادارہ ہذا کے معلمین اور عزیز طلبہ شامل تھے ۔کل تعداد 29 تھی ۔ اس مطالعاتی دورے کے لیے کوسٹر کا انتخاب کیا گیا جو سفر کے لیے نہایت موزوں ہے یہ یادگار سفر صبح آٹھ بجے باغ آزادکشمیر سے شروع ہوا تمام طلبہ نے وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا۔ موسم خوش گوار تھا , ہلکی دھوپ کے ساتھ ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھی اور گاڑی میں طلبہ خوشی سے اس سفر کو یادگار بنانے میں مصروف تھے ۔ باغ سے پیر چناسی کا سفر ساڑھے چار گھنٹے میں پورا کیا اس دوران میں دھیرکوٹ ، چمن کوٹ ، کوہالہ ، مظفرآباد کے کچھ مقامات پر گاڑی روکی بھی گی تاکہ طلبہ کو زیادہ تھکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

پیر چناسی کا مقام تاریخی مقام حضرت پیر سید شاہ حسین بخاری کے مزار اور پیراگلایڈنگ کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے ۔ یہ سیاحتی مقام آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود پہاڑ کی چوٹی پر موجود ہے ۔ یہ سیاحتی مقام 9500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ اس کے قرب و جوار میں حسین وادیوں کا نظارہ بھی کیا جاتا ہے جن میں وادی نیلم کا پہاڑی سلسلہ اور وادی کاغان کے پہاڑ مکڑا کا نظارہ قابل دید ہے ۔ بدقسمتی سے آزادکشمیر کے سیاحتی مقامات تک جانے والی شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور انتہائی تنگ اور خطرناک موڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں موجود ضروریات زندگی کے سامان کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں ۔ بہرحال ان مشکلات کو عبور کر کے ہم اس تاریخی مقام پر پہنچے تو پہلے کھانے کا اہتمام کیا گیا اور کھانے میں بریانی باغ کے مشہور ہوٹل ” کراچی نصیب بریانی ” سے ساتھ لائی گی تھی جو نہ صرف ادارہ ہذا کے معلمین اور طلبہ نے بلکہ وہاں ڈیوٹی پر موجود اہکاروں میں بھی تقسیم کی گی ۔

کھانے کے بعد صدر معلم صاحب نے تمام طلبہ اور معلمین کو ایک جگہ جمع کیا اور پھر وہاں موجود پاک فضائیہ کے کیمپ کا دورہ کروایا گیا اور اس کی اہمیت و کارناموں پر روشنی ڈالی گی ۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود پاکستان کے تاریخی علاقے علی پور سے تعلق رکھنے والے نوجوان آفیسر ندیم چاچڑ صاحب نے اس کیمپ کے قیام اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ہمیں جغرافیائی علاقوں سے آگاہ کیا ۔ پیر چناسی کے مشرق میں لائن آف کنٹرول ، مغرب میں ایبٹ آباد ، شمال میں گلگت بلتستان اور جنوب میں مری واقع ہے اور یہ تاریخی مقام پیراگلایڈنگ کی وجہ سے بھی مشہور ہے ۔ اس کے بعد راقم کے علاوہ طلبہ اور اساتذہ کرام نے بھی ان حسین نظاروں کو کمیرے کی آنکھ میں محفوظ کیا اور دوبارہ سے مظفرآباد کی جانب گاڑی رواں ہوئی ۔

مظفرآباد میں بہت سے تاریخی مقامات ہیں ان میں سے سب سے خوب صورت مقام جلال آباد پارک کا ہے جہاں بچے ،نوجوان ، بزرگ ، عورتیں سب ہی اس پرفضا ماحول میں موجود رہتے ہیں ۔ جب گاڑی وہاں پارک ہوئی تو طلبہ نے گاڑی میں اترنے کے ساتھ ہی اپنے موبائل کی اس آنکھ کو صاف کرنا شروع کیا ۔جس میں یہ حسین نظارے محفوظ کیے جا سکیں ۔ یہ خوب صورت باغ مالیوں کی محنت کا ثمر ہے جو باغ کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں اپنے بچوں کی طرح اس کی پرورش کرتے ہیں ۔ اس پارک کے عقب میں کشمیرکی تاریخی لائبریری ” خورشید نیشنل لائبریری ” بھی موجود ہے ۔ جس میں بہت سی نادر کتابیں مطالعہ کرنے کو ملتی ہیں راقم اپنے عزیز طلبہ کے ساتھ اردو کے کتب خانہ میں گیا اور وہاں اتفاقا ملاقات ہوئی کشمیر کی ابھرتی ہوئی نوجوان شاعرہ ” ماریہ نقوی صاحبہ ” سے اور ان کا تعارف اور کلام سے اپنے طلبہ کو بھی آگاہ کیا ۔ ساڑھے چار بجے دوبارہ سے گاڑی دوبارہ سے باغ کی جانب چل پڑی مگر راستے میں کشمیر آبشار کا نظارہ دیکھ کر طلبہ نے ٹھہراؤ کی ضد کی اور صدر معلم صاحب نے ان کو اس تاریخی آبشار کی سیر کروائی جہاں پاکستان سے سیاحوں کی بڑی تعداد پہلے سے موجود تھی ۔

کوہالہ دریا کے کنارے پر یہ آبشار خوب صورتی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے اور ساتھ میں سیاحوں کے لیے کوہالہ دریا کی سیر کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ۔ ان حسین نظاروں کو کیمرےکی آنکھ میں محفوظ کر نے کے بعد گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھی مگر طلبہ نے واپسی کا یہ سفر یادگار بنا دیا ۔ گاڑی میں کیف الحسن نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو راقم نے بھی آزادکشمیر کے شعرا کے کلام سے محفل میں رونق بڑھانے کی کوشش کی کلام سن کر طلبہ نے بھی داد دی اور پھر طلبہ کی جانب سے بہت سے سریلی نغمے سنے جنھیں سن کر دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو گی ۔ یہ یادگار سفر رات ساڑھے آٹھ بجے اختتام کوپہنچا ۔ یقینا مطالعاتی دورے ہمیشہ یادگار رہتے ہیں ۔ جہاں ہمیں ایک دوسرے سے سکھنے کا بھی موقع ملتا اور سیاحتی مقامات کے بارے میں علم بھی حاصل ہوتا ۔