بھٹو دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تھے

 ان سے ملیے، یہ ہیں سینئر فوٹوجرنلسٹ ظفر احمد۔۔۔۔ پورا کراچی پریس کلب انہیں ظفر چچا کے نام سے جانتا ہے۔۔۔ اب پریس کلب میں کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں، چھڑی کے سہارے چلتے ہیں، زمانہ طالب علمی میں ہم نے ظفر صاحب کو خاموش ہی پایا اور ہمیں غصے والے دکھائی دیتے تھے، جیسے خاموش سمندر ان کے اندر موجزن ہو، پوری ایک تاریخ ان میں سمائی ہے لیکن جب ان سے بات کرو تو بے شمار قصے، انگنت کہانیاں یا یوں کہیے کہ کینوس پر ایک ساتھ رنگ بکھیرنا شروع کردیتے ہیں، سننے والا بھی ان کے ساتھ ماضی میں کھو سا جاتا ہے۔ ظفر چچا کو ذوالفقار علی بھٹو کا رفیق خاص ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، آج حسب معمول پریس کلب دکھائی دیے، کپڑے کا ایک تھیلا ان کے ہاتھ میں دیکھ کر حیرت ہوئی، پوچھا ظفرچچا یہ کیا اُٹھائے گھوم رہے ہیں، ہمارے استفسار پر بتانے لگے کہ کچھ پرانی تصویریں ہیں اور پھر تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک تصویر نکالی، بھٹو صاحب صوفے پر براجمان ہیں اور ظفر چچا سامنے تعظیم سے کھڑے ہیں اور بہت سی تصویریں بھی نکال کر دکھانے لگے- عمران خان، محترمہ بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو سے لے کر مختلف سیاستدانوں سمیت جانے کون کون سی تصاویر شامل تھیں۔۔۔

ظفر صاحب 26 اگست 1951 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے، 1968 میں فوٹوگرافی شروع کی اور 1973 میں کراچی پریس کلب کے رکن بنے۔ ان کے والد سندھ یونیورسٹی میں فوٹو گرافر تھے جہاں ان کے والد کے دوست اور شہربانو رحمان(شیری رحمان) کے والد حسن علی اے رحمان جامعہ سندھ کے وائس چانسلر تھے، کہنے لگے  ہم نے اپنی زندگی کی پہلی تصویر مرحوم بھٹو صاحب کی بنائی تھی، ہوا کچھ یوں کہ 1965 میں شیری رحمان کے والد سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، انہوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سابق وزیر اعظم آئی آئی قاضی کو ایل ایل ڈی کی اعزازی سند دینےکےلیے مدعو کررکھا تھاجہاں ہم نے اپنے والد کےکیمرےسے ان کی تصویر بنائی، تب میں نویں کلاس میں تھااور یہ میری زندگی کی پہلی تصویر تھی۔

پھر انٹر میں دو پرچوں میں فیل ہوگیا اور1968 فوٹوگرافری شروع کردی۔ پی پی آئی میں بطور اسٹرنگر(جزوقتی) فی تصویر دس روپے ملتے تھے، پھر 1968 میں بھٹو صاحب نے ہلال پاکستان اخبار نکالا اور یوں میں اسٹاف فوٹوگرافر بن گیا۔1972 میں ذوالفقار علی بھٹو صدر بنے اور اور اخبارکو کراچی منتقل کردیا اور ساتھ ہی مجھ سمیت 6 اخباری کارکنوں کو بھی کراچی منتقل کرنے کا حکم دیا ۔ ظفر چچا کے بقول وہ 1968 سے 1977 تک 9 سال بھٹو صاحب کے ساتھ رہے۔میں نے کہا ظفر چچا آپ کے پاس تو پوری تاریخ ہے، کتاب کیوں نہیں لکھتے، ظفر چچا گویا ہوئے کتاب میں سچ لکھنا پڑتا ہے اور یہاں سچ سننےکو کوئی تیار نہیں۔ ویسے بھی اس ملک میں کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں، اس ملک میں کتاب کوئی شوق سے نہیں پڑھتا، اپنی زندگی میں کئی کتابوں کی رونمائی دیکھی پھر وہی کتابیں ریگل چوک پر ردی میں بکتی دیکھیں، ایوب خان نے اپنی بائیوگرافی لکھی تھی کہاں گئی، بھٹو صاحب اور محترمہ نے بھی لکھیں کس کس کے پاس ہیں یہ کتابیں۔۔۔

اچھاچلیں بھٹو صاحب کےبارے کچھ بتا دیں۔ ہمارے پوچھنے پر گویا ہوئے۔بھٹو دوست نواز انسان تھے، انہیں نیلا رنگ پسند تھا، ایک بار ان سے اسکی وجہ پوچھی تھی تو کہنے لگے مجھے نیلا رنگ اس لیے پسند ہے کہ یہ ٹھنڈا ہوتا ہے، بھٹو صاحب کو فالسے کا شربت بھی بہت پسند تھا ، ان کے ایک ملازم تھا نورا، بھٹو صاحب جب سندھ آتے تو گرمیوں میں نورا روز فالسے لاتا اورشربت بناکردیا کرتا تھا ،بھٹو صاحب کی عادت تھی وہ دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ظفر چچا کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ انہوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس کور کی۔دنیا کی دوسری بڑی نیوز ایجنسی یو پی آئی اور پھر اے ایف پی پاکستان کے بیوروچیف رہے۔
بھٹو صاحب کے بعد ظفرچچا اسپورٹس فوٹوجرنلسٹ بن گئے اور یہ ان کی پہچان بن گئی۔1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ سمیت 4 کرکٹ ورلڈکپ، 11 شارجہ کپ،3 ایشیاءکپ، 4ہاکی ورلڈکپ اور 16 مرتبہ ہاکی چیمپئنزٹرافی کور کی۔ ظفر چچا بیسٹ اسپورٹس فوٹوگرافر آف ایشیاء کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں ـ

حصہ
mm
حامد الرحمن کا صحافت سے پرانا تعلق ہے۔طالب علمی کے زمانے میں طلبہ حقوق کے حوالے سے شائع ہونے والے جریدے کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں ،ان دنوں نجی ٹی وی سے وابستہ ہیں۔ ، ان سے رابطے کے لیے ان کا ٹوئٹرہینڈلر یہ ہے۔ @Hamidurrehmaan