ای وی ایم اب کیوں حرام ہے؟

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر اپوزیش کا موقف گائوں کے اس میراثی جیسا ہے جسے شادی پہ نہ بلایا جائے تو اسی شادی میں اپنی جگت بازی کی آڑ میں سب کے سامنے کہنا شروع ہو جاتا ہے کہ دیکھ لینا اس کڑی نے وسنا نئیں۔گویا پنڈ وسے نئیں اچکے پہلاں ای آ گئے۔اگر پاکستان کی صرف اسی دہائی کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ 2011 میں جب پیپلز پارٹی بر سر اقتدار تھی تو الیکشن کمیشن کا پر زور اصرار تھا کہ دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں کس قدر ترقی کر چکی ہے اور ہم ابھی تک فرسودہ اور پرانے نظام کے تحت الیکشن کے انعقاد میں پھنسے ہوئے ہیں اس لئے ہمیں ای وی ایم کے ذریعے سے الیکشن کا انعقاد کروانا چاہئے،اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے باقاعد ہ حکومتی نمائندوں کو ایک ڈیمو کے ذریعے ای وی ایم کے استعمال پر قائل کرنے کی سعی بھی کی۔بات وہاں ختم نہیں ہو جاتی ،پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی اور بعد ازاں نون لیگ کی اپنی حکومت میں بھی دونوں میاں صاحبان کے بیانات کو اگر سنا جائے تو یوں محسوس ہوگا کہ جیسے ملک میں یہی ایک مسئلہ ہے جس کے حل سے الیکشن کمیشن اور انتخابات کے تمام مسائل اور ل جڑے ہوئے ہیں۔اور یہ بیانات کچھ زیادہ پرانے نہیں ہیں میں نے

عرض کیا کہ صرف ایک دہائی پر مشتمل یہ بیانات اور الیکشن کمیشن کا اصرار تھا۔
اب کیا وجہ ہوئی کہ جب ای وی کے استعمال اور اوورسیز کو ووٹ کے حق کی قرارداد مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں منظور کروالیا تو وہی ای وی ایم جو کہ دونوں بڑ ی سیاسی جماعتوں کے ادوار میں حلال تھیں ایک دم سے حرام ہونا کیوں قرار پائی۔میرا خیال ہے ای وی ایم کا استعمال حرام ہونا قرار نہیں بلکہ اس کے استعمال سے ان دونوں جماعتوں کو شائد قرار نصیب نہیں ہو رہا۔ای وی ایم کے بارے میں حنا پرویز سے،میاں صاحبان اور بلاول تک کے مضحکہ خیز بیانات اگرچہ ایک الگ بحث ہے،لیکن میں کبھی کبھار یہ ضرور سوچتا ہوں کہ چلیں مسلم لیگ نون کے ووٹرز کو تو ہم ان کی ہٹ دھرمی اور میاں صاحبان سے خواہ مخواہ کا مقتدی ہونے کی وجہ سے پٹواری کہتے ہیں مگر یہ بلاول صاحب تو دنیا کی بہترین تعلیمی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ان کا بھی وہی موقف ہے جو کہ ن لیگ کے قائدین نے اپنا رکھا ہے۔

اگر بقول بلاول ہم ای وی ایم،آئندہ انتخابات اور اوورسیز کو ووٹ کے حق کو تسلیم نہیں کرتے،تو میری طرح بہت سے اہل فکر وعلم کو ضرور خدشہ ہوگا کہ کیا بلاول صاحب کو دنیا کی بڑی یونیورسٹی نے بھی کچھ نہیں بگاڑا۔کہ وہ آج بھی ستر کی دہائی کا اپنے نانا کا پاکستان اور عوام استعداد اور ذہنی استعداد کا سوچ رہے ہیں۔نہیں بلاول صاحب اب حالات بدل چکے ہیں،پاکستانی عوام اب آپ کے نعروں پر سر نہیں ہلائیں گے،خاص کت وہ پاکستانی جو تارکین وطن بن کر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔جن کی تعداد ایک کروڑ کے قریب اور وہ ہر سال تیس ارب ڈالر کا زر مبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں۔ہماری کسی حکومت نے کبھی غور کیا کہ اتنے زرمبادلہ کی تو ہم ایکسپورٹ بھی نہیں کرتے جتنا کہ زر دنیا میں آ باد اوورسیز ملک پاکستان کے اکائونٹ میں ترسیل کرتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔