مردوں کا عالمی دن اور ان کے معاملات

“گاڑی پانی میں واقع کھڈے میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ اب ایک قدم بھی نہ آگے ہو رہی ہے اور نہ پیچھے۔”چھوٹی بھابھی نے روہانسی ہو کر وہ خبر سنائی جسے گاڑی میں موجود تمام لوگ کھلی آنکھوں کے ساتھ نہایت پریشانی سے خود بھی دیکھ چکے تھے۔
چند روز پہلے شدید بارشوں کے موسم میں قریب ہی ایک ضروری کام سے جانا پڑا۔ گاڑی چھوٹی بھابھی ڈرائیو کر رہی تھیں۔
ایک سڑک کافی ٹوٹی پھوٹی تھی اور اس پر بہت زیادہ پانی کھڑا تھا اور گاڑیوں کو گزرنے میں کافی مسئلہ ہو رہا تھا۔ ناگہانی طور پر سڑک پر پانی میں چھپے ایک کھڈے میں گاڑی اس بری طرح پھنس گئی کہ بھابھی گاڑی کو ایک قدم بھی آگے پیچھے کرنے سے قاصر ہو گئیں۔
ہمارے علاوہ ارد گرد موجود لوگ بھی پریشان ہو رہے تھے۔ گاڑی سڑک کے عین درمیان میں کھڑی تھی۔ لوگ دوسری سائیڈ سے گزرتے ہوئے ہارن دے دے کر بمشکل گزر رہے تھے۔اتنے میں قریب سے دو بائکس پر سوار تین اجنبی لڑکے اور ایک مرد بائیکس سائیڈ پر کھڑی کرکے گاڑی کی طرف بڑھ آئے۔ چھوٹا دس سالہ بھتیجا بھی اپنے آپ کو مرد سمجھ کر اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان کی مدد کے لیے گاڑی سے نیچے کھڑے پانی میں اترنے لگا لیکن انہوں نے اشاروں سے منع کردیا۔آدمی کی رہنمائی میں لڑکوں نے کچھ وقت لگا کر بڑی محنت و مشقت سے گاڑی کو باقاعدہ اٹھا کر کھڈے سے باہر نکالا۔ اندر سے بھابھی نے گاڑی کو گئیر لگا کر پیچھے کیا اور گاڑی آہستہ آہستہ پیچھے کرتی گئیں حتیٰ کہ گاڑی کھڈے سے مکمل طور پر باہر نکل آئی۔ اور اندر بیٹھے سب لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بھابھی اور بھتیجے نے ان کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی دوبارہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئی۔
معاشرے میں ارد گرد بکھرے ایسے کئی واقعات نظر آتے ہیں بلکہ خود ہمارے ساتھ بھی پیش آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقت ضرورت مرد اجنبی خواتین کی بے لوث مدد کرتے ہیں اور ان کے کام آتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارا معاشرہ ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوا۔ الحمد للّٰہ۔لیکن اس واقعے میں ایک اہم کردار چھوٹے دس سالہ بچے کا بھی تھا جو اس معاملے میں اپنی والدہ کی مدد کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے اپنا کردار حسب توفیق ادا کرنے کو تیار تھا۔ بلاشبہ چھوٹے بیٹے بھی اپنی ماؤں بہنوں کے معاون و محافظ بننے کے خواہاں ہوتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت کی زندگی میں چار خوبصورت  محرم رشتہ دار مرد باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹا ہوتے ہیں جو اس کی آن بان، شان و مان اور مضبوط ترین سہارے ہوتے ہیں۔ جن کی موجودگی اس کے لیے اطمینان و سکون کا باعث ہوتی ہے۔اگرچہ وجود زن سے کائنات میں رنگ و بو کی بہاریں ہیں لیکن خود وجودِ زن کا ہر رنگ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے وجود سے رنگا ہوا اور معطر ہے۔ باپ اور بھائی محبت و شفقت نثار کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور شادی کے بعد اگر رفیق حیات اچھا ہو تو زندگی راحت و سکون بن جاتی ہے وگرنہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ اس لیے شوہروں کی اچھی ازدواجی زندگی کے لیے عمدہ تربیت ہونی چاہیے۔
بہترین، مضبوط اور کامل مرد وہ ہوتا ہے جو اپنی تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائے اور تمام رشتے ناتوں میں اعتدال اور توازن رکھے خصوصاً بیوی کے ساتھ صحیح رویہ رکھنے والا ہو اور اس کے حقوق بھی پورے کرنے والا ہو۔
؎ موسم، خوشبو، باد صبا، چاند، شفق اور تاروں میں
کون تمہارے جیسا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے
لیکن۔۔۔
دراصل پریشانی یہ ہے کہ ایسے مرد ہوتے بہت کم ہیں!والدین کو خصوصاً باپوں کو بیٹوں کی شادی کرنے سے پہلے شادی شدہ زندگی اور بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے ان کی ذہن سازی اور عملی تربیت کے لیے تیار کرنا چاہیے۔بیٹے بھی شعوری یا لاشعوری طور پر باپ کی نقل کرتے ہیں اور باپ کی طرح اچھے یا برے طریقے سے رشتے نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا باپ ابھی بھی اپنی کمی کوتاہی کی اصلاح کرلیں تاکہ اپنے بیٹوں اور اگلی نسلوں کے لیے رول ماڈل بن جائیں۔
شادی کے بعد بھی کئی شرعی یا معاشرتی احکام و مسائل ایسے ہوتے ہیں جو والدین کو بیٹوں سے ڈسکس کرکے ان کو سمجھانا چاہئیے کہ ان کی ذمہ داریاں اب اور طرح کی ہیں اور پہلے سے بڑھ چکی ہیں۔ خاص طور پہ والدین، بہن بھائیوں اور اپنی اہلیہ کے ساتھ تعلقات کا توازن کیسے قائم کرنا ہے؟ یہ اعتدال کس طرح برقرار رکھنا ہے؟یہ بہت اہم اور نازک معاملہ ہے جس پر شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا بڑی حد تک انحصار ہوتا ہے۔شادی کے بعد شوہر کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ذمہ داریاں اور ڈیوٹیاں نبھانے والی بیوی کے حقوق کا بھی خیال رکھے۔ اس کے لیے پیار و محبت کے چند فقرے بول کر اس کی حوصلہ افزائی کرے، اور اپنی بیوی سے مکمل طور پر مخلص رہے۔ اور یہ زن مریدی نہیں ہوتی بلکہ یہ تو فرض ہوتا ہے شوہر کا کہ شرعی و الہی احکامات بھی یہی ہیں۔
مرد کو یہ بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنی بیوی کے لیے صاف ستھرا رہے، بنے سنورے، خوشبو استعمال کرے، اپنی شخصیت (Personality) دیدہ زیب بنا کر رکھے تاکہ بیوی کو بھی شوہر محبوب رہے۔
؎یقیں  محکم ، عمل  پیہم ،  محبت  فاتح  عالم
  جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
نبی مہربان ﷺ کی ساری زندگی نہ صرف اپنی ازواج مطہرات بلکہ دیگر اپنی قریبی رشتہ دار خواتین سے بہترین سلوک کی شاہد ہے. آپ ﷺ نے اپنی چاروں بیٹیوں کے علاوہ اپنی دیگر قریبی رشتہ دار خواتین سے بھی بہترین سلوک کیا جن میں آپ ﷺ کی پھپھیاں اور چچیاں اور دیگر رشتہ دار خواتین وغیرہ شامل ہیں. رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، رضاعی بہن حضرت شیماء رضی اللہ تعالٰی عنہا اور دایہ حضرت امِ ایمن رضی اللہ عنہا وغیرہ سے بھی آپ ﷺ کا تعلق مثالی تھا۔
نبی مہربان ﷺ انسان کامل اور رول ماڈل تھے اور حقوقِ نسواں کے محافظ و علمبردار تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ خاتم النبیین ﷺ نے مردوں کے حقوق کو بھی مکمل طور پر بیان کیا ہے اور خواتین اسلام کو ان کی ادائیگی کی طرف بھرپور توجہ دلائی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عام طور پر میاں بیوی کو اکثر ایک دوسرے سے زیادہ شکایتیں نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کی لڑائی کی زیادہ تر وجوہات  فریقین کے (بلکہ عموماً مرد کے) اہل خانہ اور ان کے رویے ہوتے ہیں۔
لہذا دوسروں کی باتوں میں آنے سے پہلے میاں بیوی کو براہِ راست ایک دوسرے سے یا متعلقہ شخص سے بات چیت کرکے غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششیں ضرور کرنی چاہییں۔بہرحال ان جھگڑوں میں بچوں کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت میں مضبوطی کے بجائے ٹوٹ پھوٹ نمایاں ہوتی ہے۔کہیں وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اور کہیں وہ جسمانی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
گھر کا آنگن بیٹے اور بیٹیوں سے بھرا ہوا ہو لیکن گھر کے درو دیوار پریشان ہوں، ننھے منے دل وحشت زدہ ہوں، ماں پریشان حال ہو اور روح و دل شوہر کا غصہ اور ناروا رعب کا بوجھ اٹھائے تھک چکے ہوں، شوہر کے گھر میں داخل ہونے کے بعد صرف اس کا غیض و غضب اور چیخ و پکار ہو تو گھریلو جنگ چھڑتے دیر نہیں لگتی۔ پھر وہ گھر ‘جائے قرار” اور “سکون کا باعث” نہیں رہتا۔ بےچارے بچے سہمے ہوئے، بیوی پریشان حال اور افسردہ، خود شوہر اس بھونچال کے بعد بکتا جھکتا گھر سے باہر چلا جائے تو اہل خانہ میں سے کون خوش و خرم رہ سکتا ہے؟
پھر یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ نہ تو عورت ہر وقت اور ہر جگہ مظلوم  ہوتی ہے، اور نہ ہی معصوم!بلکہ کئی دفعہ اس کا شمار ظالموں میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس کا طریقہ کار مرد سے مختلف ہوتا ہے۔ لوگ عموماً عورت کو مظلوم سمجھتے ہیں جبکہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔حقوقِ نسواں اور خواتین پر کیے گئے مظالم پر گفتگو زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن مظلوم مرد بھی ہوتے ہیں۔
جی ہاں! مرد ہر وقت اور ہر جگہ نہ ظالم ہوتا ہے، اور نہ ہی مردود!یہ بھی قابل غور معاملہ ہے کہ مردوں کو بھی ذہنی و جذباتی اور نفسیاتی مسائل لاحق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن میں بھی خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ترانوے فیصد مرد کام یعنی جاب/ روزگار کے دوران انتقال کر جاتے ہیں۔اس لیے مردوں کو بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو چھپانے کے بجائے ان کا اظہار کریں تاکہ وہ ٹینشن اور ڈپریشن جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔اور صحیح بات تو یہ ہے کہ گھر میں میاں بیوی میں سے کوئی بھی فرشتہ نہیں ہوتا۔لڑائی جھگڑوں میں دونوں کی غلطیاں ہوتی ہیں، کسی کی کم، کسی کی زیادہ۔بہت کم ایسے ہوتا ہے کہ کسی ایک کی ساری غلطی ہو اور دوسرا بالکل مظلوم اور معصوم ہو۔بلکہ ان معاملات میں دونوں کے رویے اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا دونوں کو اصلاح کے ساتھ ساتھ ایثار و قربانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ رشتہ اور  گھر تو دونوں کا باہمی ہوتا ہے!
 اور بچے بھی دونوں کے سانجھی ہوتے ہیں!
لہذا گھر بنانے اور بچانے کے لیے تعلقات اور معاملات میں اعتدال و توازن کا جو حکم قرآن وسنت میں سکھایا پڑھایا گیا ہے تو دونوں کو اس پہ عمل پیرا بھی ہونا ہوگا۔ ورنہ پھر”عورت مارچ” اور “حقوقِ نسواں” کی ہی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی۔عصر حاضر میں عورت کو خوب معلوم ہے کہ اس کے حقوق کون سے ہیں اور فرائض کون سے؟ لیکن اب مرد بھی اپنے خلاف امتیازی رویوں اور سلوک کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔  خصوصاً 19 نومبر “عالمی یوم الرجال” کے موقع پر خواتین کی طرح نوجوان لڑکے اور مرد بھی اپنے حقوق کے طالب ہوتے ہیں۔ اگر مرد سیرت و کردار کے بجائے صرف خوبصورتی اور حسن و جمال کی بنیاد پر بیوی کا انتخاب کرتے ہیں تو انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں محتاط اور فکر مند رہنا چاہیے۔
اور اگر کوئی لڑکی اس غلطی فہمی میں رہتی ہے کہ اس کی خوبصورتی، حسن وجمال، نزاکت اور فیشن اس کی سب سے بڑی خصوصیت اور پلس پوائنٹ ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔بالآخر وقت بتاتا ہے کہ بیوی جتنی بھی خوبصورت ہو لیکن سیرت و کردار ہمیشہ خوبصورتی پر فوقیت لے جاتے ہیں۔پھر بیوی کو ایسے شوہروں سے درپیش ایک اہم مسئلہ ان کی “بدنظری” کا ہوتا ہے جنہیں وہ معمولی بات سمجھتے ہیں۔ اگر شوہر کو اس سے بچانے کی سو فیصد ذمہ داری صرف اس کی بیوی پر عائد ہوتی تو قرآن مجید میں “غض بصر” کا حکم پہلے مردوں کے لیے نہ نازل ہوتا۔
لہٰذا مرد صرف اپنی بیویوں سے تعلقات رکھیں اور بدنظری کو معمولی نہ سمجھیں بلکہ شریعت کا اہم ترین حکم سمجھ کر نظریں جھکا کر رکھنے کی عادت ڈالیں کہ بدنظری اہم ترین فتنہ ہے۔ اور گھروں کی بربادی کا ایک اہم سبب بھی۔قرآن و سنت سے دوری، بے عملی اور پھر ان باتوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دینا وغیرہ ان تمام مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اعتدال و توازن اور دیگر تمام خصوصیات  اجتماعی طور پر مضبوط خاندان اور مستحکم معاشرہ قائم کرتی ہیں۔
؎اب جس کے جی میں آئے، وہی پائے روشنی
 ہم  نے تو دل جلا  کے  سر عام  رکھ  دیا