ایچ آئی وی ایک قابل علاج مرض

ایچ آئی وی ایک قابل علاج مرض ہے ، پاکستان میں اس کے پھیلاﺅ کی سب سے بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجز کا دوبارہ استعمال اور غیر محفوظ انتقال خون ہیں،کراچی جیسے بڑے شہر میں اتائیوں کی بھرمار اور سرنجز کے ذریعے منشیات کا بڑھتا استعمال ہیومن ایمیونوڈیفی شنسی وائرس یعنی ایچ آئی وی کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جوخون کے سفید خلیوں کو تباہ کرکے انسانی مدافعتی نظام کوکمزور کرتا ہے جس سے وہ انفیکشنز کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں رہتا اور انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

کراچی میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد صوبے کے تمام اضلاع سے زیادہ ہوگئی ہے،یہ ایک تشویش ناک بات ہے لیکن طبی ماہرین اس اضافے کو کراچی کی آبادی کا دوسرے شہروں سے زیادہ ہونا قرار دیتے ہیں ،یہ اعدادوشمار محکمہ صحت سندھ کے جاری کردہ ہیں جن کے مطابق کراچی کے ضلع وسطی میں ایچ آئی وی کیسز کی شرح لاڑکانہ سے بڑھ گئی ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول سندھ ڈاکٹر ارشاد کاظمی کے مطابق سندھ میں ایچ آئی وی کے سب سے زیادہ کیس کراچی کے ضلع وسطی میں ہیں، جہاں 2 ہزار 725 کیسز ، ضلع جنوبی میں ایک ہزار 35، ضلع غربی میں 998 کیسز، ضلع کورنگی میں 907 ، ضلع ملیر میں 667 اور ضلع شرقی میں 436 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

 کراچی میں مجموعی طور پر ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد 6768 ہے، حیدرآباد میں کیسز کی تعداد ایک ہزار 89 ہے، کراچی میں ہیلتھ رپورٹرز کی ورک شاپ میں ڈاکٹر ارشاد نے بتایا کہ لاڑکانہ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد 2430 ہے،جن میں تقریبا بارہ سو بچے ہیں۔

ڈاکٹر ارشاد کا کہنا تھا کہ یہ اتنی تشویش ناک بات نہیں ہے ، تاہم یہ وہ لوگ ہیں جو اسپتال آئے اور اسکریننگ کے نتیجے میں یہ پتہ چل سکا ہے کہ یہ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں اور ان کا علاج شروع کردیا گیا ہے لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہیں اپنا اسٹیٹس معلوم ہی نہیں ہے اور ہمارے پاس ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے کہ گھر گھر جا کر سب کی اسکریننگ کی جا سکے اور ایسے افراد تلاش کرکے ان کا علاج کیا جا سکے۔

ماہرین کے اندازے کے مطابق سندھ میں 70 تا 78 ہزار ایچ آئی وی مریض ہیں، جن میں سے صرف 13 ہزار 864 مریض رجسٹرڈ ہیں جن میں 9166 مرد،2461 عورتیں،1126 لڑکے اور 730 لڑکیاں ہیں، 421 خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔ کراچی میں ایچ آئی کیسز میں اضافہ محکمہ صحت سندھ اور ایچ آئی وی کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز کے لیے بھی پریشان کن ہے کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو اب تک رپورٹ ہوچکے۔

 محکمہ صحت سندھ کے مطابق صوبے میں 16000 کے قریب ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد محکمہ صحت سے رجسٹرڈ ہیں، ساڑھے 13 ہزار افراد کو ادویات مل رہی ہیں، سندھ میں اب تک ایچ آئی وی سے جاں بحق افراد کی تعداد انیس سو ترانوے ہے۔

انڈس اسپتال سے منسلک متعدی امراض کی ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے بتایا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے جس کی آبادی ڈھائی تین کروڑ ہے ، کراچی کے مسائل بھی کہیں زیادہ ہیں ، یہاں اتائیوں کی بھرمار ہے، غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکس ہیں اورایچ آئی وی پھیلنے کی دوسری سب سے بڑی وجہ غیر محفوظ اور غیر معیاری انتقال خون ہے ،پھر اسی تناسب سے یہاں غیر ضروری انجکشن لگانے کی پریکٹسز بھی زیادہ ہیں ،پاکستان میں سالانہ 800 ملین سرنجز کا استعمال ہوتا ہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، سندھ سمیت پورے پاکستان میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب آلودہ سرنجز اور انجکشن کا بے تحاشا استعمال ہے۔

 شہریوں کی اکثریت ایسی ہے جو ڈاکٹروں کو زور دیتی ہے کہ انہیں ہر بیماری کی صورت میں انجکشن لگاکر فوراََ ٹھیک کردیا جائے اور شہر میں اتائیوں کی بھرمار ہے جو زرا سی بیماری کی صورت میں اسٹیورائڈز انجکشن کی صورت میں لگا رہے ہیں جس کے نتیجے میں بیمار شخص فوراََ ٹھیک ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ غیر محفوظ جنسی تعلقات، ایچ آئی وی سے متاثرہ حاملہ عورت سے پیدا ہونے والے بچے کو بھی یہ وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔

ایچ آئی وی سے بچاﺅ صرف اسی احتیاط سے ہی ممکن ہے، شہریوں کو چاہیے اتائیوں کے پاس جانے سے گریز کریں ، انتقالِ خون کے دوران یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ خون صرف معیاری اور رجسٹرڈ بلڈ بینکس سے حاصل کیا گیا ہو اور مریض کے جسم میں منتقل کرنے سے پہلے اس کی مکمل جانچ کی گئی ہو۔دورانِ علاج اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہر بار نئی سرنج استعمال کی جائے۔ عوام کو چاہیے کہ دانتوں کا علاج بھی صرف مستند ڈاکٹروں سے کروائیں جو سٹرلائز شدہ آلات استعمال کرتے ہوں۔ اِسی طرح نائی سے شیو کرواتے وقت یہ تسلی کر لی جائے کہ نیا بلیڈ استعمال کیا جا رہا ہے کوشش کریں کہ ڈسپوزایبل شیونگ کٹ استعمال کی جائے۔

ایچ آئی وی سے متعلق لوگوں میں بہت سے غلط تصورات بھی پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد سے امتیازی سلوک برتتے ہیں، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایچ آئی وی یا ایڈز کسی متاثرہ مریض کے تھوک یا اسے چھونے سے پھیل سکتا ہے ماہرین کے مطابق ایچ آئی وی یا ایڈز کسی کو چھونے، متاثرہ مریض کے آنسوؤں، پسینے، تھوک، معانقہ کرنے یا ہاتھ ملانے، متاثرہ شخص کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھانے سے کسی دوسرے انسان میں منتقل نہیں ہوتا، ایچ آئی وی یا ایڈز جسم میں موجود سیال مادوں کی کسی دوسرے شخص کے جسم میں ایک خاص مقدار منتقل ہونے سے ہوتا ہے، تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ وائرس مچھروں کے ذریعے دوسرے انسانوں میں منتقل نہیں ہو سکتا کہ مچھر انسانی جسم خون چوستا ہے اور اپنا لعاب منتقل کرتا ہے۔

ڈاکٹر ارشاد کاظمی نے بتایا کہ کراچی میں سات ٹریٹمنٹ سینٹرز سمیت سندھ میں 15ٹریٹمنٹ سینٹرز کام کر رہے ہیں جہاں سے 14ہزار کے لگ بھگ رجسٹرڈ مریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔

حصہ
mm
حامد الرحمن کا صحافت سے پرانا تعلق ہے۔طالب علمی کے زمانے میں طلبہ حقوق کے حوالے سے شائع ہونے والے جریدے کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں ،ان دنوں نجی ٹی وی سے وابستہ ہیں۔ ، ان سے رابطے کے لیے ان کا ٹوئٹرہینڈلر یہ ہے۔ @Hamidurrehmaan