مہنگائی ہے ہی نہیں

ایک شخص نے دوسرے شخص سے کہا کہ میں مگرمچھ کو ماچس کی ڈبیا میں بند کر نے کا ماہر ہوں۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے دعوے کو سن کر پہلے تو اس کا بہت گہری نظروں سے جائزہ لیا کہ کہیں یہ دماغی لحاظ سے کھسکا ہوا تو نہیں لیکن جب اسے اندازہ ہوا کہ آدمی تو معقول ہی نظر آتا ہے تو حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے دریافت کیا کہ حضرت آپ ایسا کیسے کر لیتے ہیں، اس نے کہا کہ بہت آسانی کے ساتھ کرتا یوں ہوں کہ میرے پاس ایک دوربین ہے جب بھی ساحل کے کنارے مجھے مگرمچھ نظر آتا ہے میں دوربین کو الٹی جانب سے پکڑ کر مگر مچھ کی جانب دیکھتا ہوں تو مگر مچھ مجھے نہایت چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ میں اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے چٹکی سے پکڑ لیتا ہوں اور ماجس کی ڈبیا میں بند کر لیتا ہوں۔

دیکھا یہی گیا ہے کہ سیاستدانوں کو ملک کے سارے مسائل اقتدار میں آنے سے قبل بہت معمولی اور چھوٹے چھوٹے دکھائی دیتے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ کرسی اقتدار پر براجمان ہونے سے قبل انھوں نے مسائل دکھانے والی دوربین کو الٹی جانب سے پکڑا ہوا ہوتا ہے لیکن جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہی مسائل ہمالیہ سے بھی بلند اور سمندروں سے بھی کہیں زیادہ وسیع و عریض نظر آنے لگتے ہیں۔

مہنگائی ایک ایسا عفریت ہے جس کے حجم کو کسی بھی دور میں بڑھنے سے نہیں روکا جا سکا۔ اگر میں خود بھی اس بات کا جائزہ لوں تو میرے اپنے زمانے میں روپے کے سویں حصے یعنی ایک پیسے کی بھی اتنی قدر و قیمت ہوا کرتی تھی کہ اکثر اوقات لین دین کے معاملے میں نوبت تکرار سے بھی آگے نکل جایا کرتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ “چونی” یعنی 25 پیسے کا سکہ جس کا نصف ساڑھے بارہ پیسے ہوا کرتا تھا اس کی لین دین میں دکاندار اور خریدار میں اچھی خاصی گرما گرمی ہو جایا کرتی تھی وجہ یہ تھی کہ اگر “ادھنے” یعنی دو آنے کی کوئی چیز لینی ہوتی تو دکاندار کا مطالبہ 13 پیسے لینے کا ہوتا تھا جبکہ گاہک 12 پیسے سے زیادہ دینے کیلئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اب وہ وقت بھی آن پہنچا ہے جب پانچ دس روپوں کے فرق کو بھی خریدنے اور فروخت کرنے والا کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں پر نہ تو قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن رہا ہے لیکن ایک کام پوری دنیا میں ضرور ہوتا رہا ہے کہ مہنگائی کے احساس کو کم سے کم ضرور کیا گیا اور کیا جاتا رہا ہے۔ مہنگائی کے احساس کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ افراد کی قوت خرید کو مہنگائی کے تناسب سے بڑھایا جائے تاکہ کسی بھی فرد کی معاشی خوش حالی بد حالی کی نذر نہ ہو جائے۔

افراد کی قوت خرید کو برقرار رکھنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً افراد کی تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ کیا جائے یا پھر روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔

پاکستان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ در اضافہ دیکھا جاتا رہا ہے لیکن دنیا ہی میں نہیں، پاکستان میں بھی اس پر قابو پانے کیلئے اجرتوں میں اضافہ اور روزگار کی مواقعوں میں بھی، غیر متناسب ہی سہی، اضافہ ہوتا رہا ہے۔ نہایت تشویش کی بات یہ ہے کہ گزشتہ سوا تین برسوں میں مہنگائی میں تو کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن نہ تو ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں اور مراعات میں کوئی اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کی سرگرمیوں میں اتنا اضافہ ممکن بنایا جا سکا ہے کہ عوام مہنگائی کے مقابلے میں جم کر کھڑے ہو سکیں۔

ایک جانب بے لگام مہنگائی نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب حکومتی حلقوں کی جانب سے عوام کے رستے زخموں پر یہ نمک پاشی جاری ہے کہ پاکستان میں مہنگائی خطے کے دوسرے ممالک سے بہت کم ہے۔ اگر اسی فلسفے کو مان لیا جائے تو 2018 میں پاکستان خطے کے ممالک کے مقابلے میں کتنا زیادہ سستا ترین ملک رہا ہوگا۔ جب 2018 میں پاکستان نہایت سستا ترین ملک تھا تو مہنگائی مہنگائی کا شور کیوں مچایا گیا تھا۔

کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک جانب مہنگائی پر کسی پہلو قابو نہیں پایا جا رہا تو دوسری جانب خود وزیر اعظم اور ان کی کابینہ و ترجمانوں کی فوج ہر روز آکر عوام کو یہ خوشخبری سنا کر چلی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پٹرول، گیس، چینی اور کھانے پینے کی دیگر اشیا میں اور بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے گزارش ہے کہ خدارا وہ دوربین جو انھوں نے 2018 کے الیکشن سے پہلے اپنی آنکھوں میں الٹی کرکے لگائی ہوئی تھی ایک مرتبہ پھر اسے الٹا کرکے لگالیں اور مہنگائی کے طوفانی سمندر کے ساحل پر مہنگائی کے جو بڑے بڑے مگرمچھ عفریت کی شکل اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں ان کو چٹکیوں سے پکڑ پکڑ کر ماچس کی ڈبیوں میں بند کرنا شروع کردیں یا پھر قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگیں کہ اقتدار میں آنے سے قبل ہر مصیبت اور پریشانی کو ہم الٹی دور بین سے دیکھتے رہے تھے جو ہماری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی۔ قوم بڑی فراخ دل ہے وہ ہر زخم اور زخموں پر نمک پاشیاں کرنے والوں کو بھول جایا کرتی ہے۔ امید ہے کہ قوم آپ کو بھی معاف کر دے گی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔