لائن اورکھڈے لائن

لغتِ اخلاقیات میں کھڈے لائن کی اصطلاح اگرچہ غیر اخلاقی سمجھی جاتی ہے تاہم عام آدمی سے افسر شاہی تک ہر کوئی کبھی نہ کبھی’’ کھڈے لائن ‘‘ضرور لگا ہوتا ہے۔اب یہ امر لاز م بھی نہیں کہ کھڈے لائن لگنے والا ہر شخص نقصان ہی کا حامل ہو کبھی کبھار کھڈے لائن لگنا کسی کو راس بھی آجاتا ہے۔جیسے کہ OSD کھڈے لائن کی جدید اور انگریزی اصطلاح ہے،اس فرائض منصبی میں رشوت خور افسر کھڈے لائن یا OSD لگا دیا جائے تو سزا اور اگر شریف افسر کو وہیں تعینات کر دیا جائے تو شکر الحمد للہ(اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے)۔ویسے OSD ایسی تعیناتی ہے کہ جس میں سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔بس یوں سمجھ لیں کہ

چور اچکا چودھری،تے غنڈی رن پردھان

مجھے تو بابا جی اشفاق احمد کی بات سو فیصد سچ لگتی ہے کہ ’’وہ قوم اپنے پائوں پہ کیا کھڑی ہوگی جو سگنل پر ایک سیکنڈ کھڑی نہیں ہو سکتی‘‘

واقعی قوم احتجاج کے لئے مہینوں سڑکوں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن سگنل پر کھڑے ہونے میں انہیں تکلیف ہوتی ہے۔میرا ایک قطری دوست پاکستان گیا تو واپس آکر مجھے پوچھنے لگا یار پاکستان میں جو نوجوان سگنل توڑ کر آنا فانا نکل جاتے ہیں یہ جاتے کہاں ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ نوجوان اپنے گھر اور کام کے علاوہ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ہمارے نوجوان تو یقین جانئے صبح سویرے بیدار ہوتے ہی سب سے پہلی دعا ہی یہی کرتے ہیں کہ یا باری تعالیٰ کوئی کام نہ دینا وگرنہ کرنا پڑ جائے گا۔

سوشل میڈیا کی مقبولیت اور نوجوان نسل کی قبولیت نے قوم کو بھی اب ڈاٹ کام بنا دیا ہے۔اس بات کا اندازہ مجھے دوران لیکچر ایک کلاس میں ہوا،جب میں نے سبق بڑھاتے ہوئے یہ پوچھ لیا کہ کیا آپ جانتے ہیں آپ کا تعلق کس قوم سے ہے(میرے ذہن میں تو علامہ اقبا ل کی مشہور زمانہ نظم خطاب بہ نوجوانانِ اسلام تھی) تاہم ایک انتہائی سنجیدہ طالب علم نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ سر .COM سے۔اس دن سے یقین ہو چلا کہ واقعی قوموں کا اثاثہ نوجوان ہوتے ہیں۔اگر ہمارے اثاثہ جات کی یہی صورت حال رہی تو آئندہ نسل(.com ) کو ہم وراثت میں ’’چھان بورا‘‘ہی سونپیں گے۔

ملک میں جو قوم لائن میں کھڑے ہونے کو کھڈے لائن یا اپنی شخصیت کی توہین سمجھتی ہے دیار غیر میں ایک دم سے پتہ نہیں کیوں تہذیب یافتہ ہو جاتی ہے۔میں نے دو دہائیاں غیر ملک میں گزار کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ دیار غیر میں دو خوف سے ہم پاکستانی لائن میں لگتے ہیں۔یورپ میں ہو تو ڈنڈے کا خوف اور عرب ممالک میں ہوں تو کفیل کا ڈر ۔اگر یہی لوگ پاکستان میں ہوں تو انہیں لائن لگانے میں نہیں، لائن توڑنے میں مزہ آتا ہے۔اسی سال کی بات ہے جب میں تعطیلات گرما گزارنے پاکستان گیا تو لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہی میرے ایک ہم عصر نے جہاز چھوڑتے ہی یوں ریس لگا دی جیسے کہ کل اس کا سو میٹر کا فائنل ہو۔بندوں کو کندھے مارتے ،لائن توڑتے ہوئے،امیگریشن کی لائن میں سب سے آگے جا کر یو ںلمبے لمبے سانس لینے لگا جیسے کہ کوئی غریب سکھ کا سانس لے رہا ہو۔میں نے پوچھا یار ماجرا کیا ہے آپ نے ایسا کیوں کیا۔تو کہنے لگا یار دو سال بعد پاکستان آیا ہوں،قانون کی پاسداری کرتے کرتے طبیعت عجیب سی بلکہ ’’کچی پکی‘‘سی ہو گئی تھی،اب اپنے ملک میں آیا ہوں توروح کو بھی تو پتہ چلنا چاہئے کہ پاکستان پہنچ چکی ہے۔

1990 کی دہائی میں جب ابرار الحق کا مشہور زمانہ گانا ’’کنے کنے جاناں اے بلو دے گھر‘‘مارکیٹ میں آیا تو میری قوم کا ہرفرد اس وقت سے ہی بلو دے گھر تو لائن لگانے کو تیار ہے مگر سرکاری دفتر کے باہر نہیں۔ان دنوں کچھ ’’بلو‘‘کو تو اپنے گھر کے باہر لائن دیکھ کر اپنا نام بھی تبدیل کرنا پڑگیاتھا ۔میرے اپنے علاقے میں ایک لڑکی کا نام بلو تھا ،جب بھی وہ مارکیٹ جاتی ہر طرف سے صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں کہ ’’کنے کنے جانا ں اے بلو دے گھر‘‘،اس بے چاری کو عوام کی ہوٹنگ سے تنگ آکر اخبار میںاشتہار دینا پڑ گیا کہ آج کے بعد اسے ’’بلو‘‘ نہیں بلکہ بلال کے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔

آج کل حکومت پاکستان ہر سرکاری دفتر میں ایک ’’بلو‘‘تعینات کرتی جا رہی ہے۔یہ سوچتے ہوئے کہ جہاں ’’بلو‘‘ہوگی شائد وہاں لائن بھی ہوگی۔مگر یہ حکومت کی خام خیالی ہی نکلی کیونکہ ایسی تمام جگہوں پر جہاں حکومت نے بلو کی تعیناتی اس نیت سے کر رکھی ہے کہ وہاں عوام لائن لگائیں گے،وہاں لائن تو نہیں لگی،مگر لائن مارنے والوں کی بھرمار ضرور دیکھنے میں آتی ہے۔کارپوریٹ ورلڈ میں تو پہلے سے ہی کئی کئی’’ بلو رانیاں‘‘ تعینات تھیں۔اسی لئے ہر کارپوریٹ دفتر میں آپ کو ہرکام نظم و ضبط میں دکھائی دے گا۔ان کی دیکھا دیکھی ہی تو سرکاری دفاتر نے بھی اپنا منہ لال کرنا شروع کیاہے۔اگر کسی بینک یا سرکاری دفتر میں عوام الناس لائن میں نظر نہ آئیں تو سمجھ جائیں کہ’’ بلو لال ‘‘نہیں بلکہ’’ سیاہ ‘‘ہے۔ایسے ہی ایک سرکاری دفتر میں ایک’’ سیاہ بلو‘‘ کو دیکھ کر اس گیت کی سمجھ آئی جو کہ شائد زندگی بھر سمجھ نہ پاتا کہ

’’پھلاں دے رنگ کالے سرخ گلاباں دے موسم وچ‘‘

جن اداروں میں بلو کا رنگ سیاہ ہوتا ہے یقین جانئے وہاں تو کوئی بوڑھا بھی بل جمع نہیں کروانے جاتا۔اور اگر بلو واقعی بلو ہو تو ہر کوئی خوامخواہ اپنا اکائونٹ کھلوانے لائن میں لگ جاتا ہے۔بلو اگر لال ہو تو لوگ کھڈے لائن وگرنہ’’ بلو‘‘ کھڈے لائن۔ابرار الحق کے گانے کے بعد قوی امید تھی کہ یہ قوم منظم طریقے سے لائن میں لگ جائے گی لیکن مجال ہے کہ قوم ’’بلو‘‘ سے آگے بڑھی ہو۔یہ تو وہی بات ہو گئی کہ ایک دن میں نے کلاس میں بچوں کو تجویز دی کہ اشوک فلم دیکھ کر آئیں تاکہ تاریخ کے بارے میں انہیں کچھ جانکاری ہو سکے۔اگلے روز جب میں نے بچوں سے فلم کی سٹوری کے بارے میں جاننے کے لئے پوچھا تو یقین کیجئے گا اکثریت طلبا نے جواب دیا کہ سر ہم توکرینہ کپور سے آگے نہ جا سکے۔چیونٹیاں اور کیڑے مکوڑے بھی لائن میں چلتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں مگر ہمارے ہاںمجال ہے کہ ماسوا بارات پر بینڈ باجے والوں کے کوئی لائن میں دیکھا جاتا ہو۔بینڈ والے بھی کوئی نظم وضبط کے لئے لائن نہیں بلکہ اس ڈر سے کہ ان کی ’’ویل‘‘کوئی اور نہ لے اڑے سیس،ہ پلائی دیوار بنا ئے رہتے ہیں۔

کالج کی کینٹین سے کالج کے کیش آفس تک ہر جگہ جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ لائن میں آئیں۔نوجوان طلبہ لائن بنانے میں اتنی توجہ نہیں دیتے جتنا انہماک لڑکیوں کو لائن مارنے میں ظاہر کرتے ہیں۔مگر جناب آج کی شوریاں،شوروں سے کم ہیں کیا؟وہ بھی لڑکوں کو ایسے کھڈے لائن لگاتی ہیں کہ ساری عمر یاد رکھتے ہیں۔ایک مثال تو میرے اپنے کلاس فیلو کی ہے جو ہم سب کے سمجھانے کے باوجود بھی اپنی ہی کلاس فیلو سے پسند کی شادی سے منع نہیں ہوا۔اب ایک بیوی،اور چھ بچوں کی لائن میں ایسے آگے آگے چلتا ہے جیسے کہ ریلوے کا کالا انجن ٹرین کے آگے۔میرا تدریسی تجربہ یہ کہتا ہے کہ بچوں کو پڑھنے میں دلچسپی ہو نہ ہو،اسمبلی میں لائن لگائیں نہ لگائیں لیکن نوٹ بک پر لائن لگانے کو پسند ضرور کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ نوٹ بک خوب صورت لگے بلکہ اس لئے کہ ایسے عمل میں وقت کا ضیاع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔کبھی تجربہ کر لیجئے گا جس بچے کی نوٹ بک پر لائن خوب صورت ہوگی اس کی لکھائی اتنی ہی گندی ہوگی۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی لکھائی والے اکثر ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔جن کے نسخے دیکھ کر ضرب المثل کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے کہ لکھے موسا پڑھے خود آ ۔ایسے بچوں کو مشغول رہنانہیں بلکہ شغل میں رہناپسند ہوتا ہے۔یقین کیجئے کہ پھول اور درخت بھی وہی خوبصورت اور پیارے لگتے ہیں جو لائن میں ہوں وگرنہ جنگل۔ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہم کیوں معاشرہ کو جنگل اور جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں،بس ایک لائن بنانے کے عمل پر عمل پیرا ہوجائیں آپ دیکھئے گا کہ آپ کے ارد گرد ماحول کتنا پیارا اور خوبصورت ہو جائے گا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔