حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم

جب محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی انسانی زندگی کا ہر گوشہ جگمگانے لگا ظلم اور جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم کی روشنی اور دین کے نور سے منور ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و بعثت سے قبل انسانیت مقام آدمیت سے گر کر ظلمتوں کی پستیوں میں گری ہوئی تھی، ایک مقدس رات سرزمین مکہ میں مالک حقیقی کے مقرب اور مقدس فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی وسلم پر پہلی وحی پیش کی جس نے سارے عالم کو علم کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

پہلی وحی کا آغاز عقیدے یا اعلان نبوت سے نہیں بلکہ لفظ اقراء سے ہوا “پڑھیے اپنے رب کے نام سے جو ہر چیز کا خالق ہے” معلوم ہوا ہر علم پسندیدہ نہیں بلکہ علم وہی نافع اور باعث خیر و برکت ہے جس کا تعلق خالق حقیقی سے جڑا ہوا ہو۔

اللہ تعالی نے جس نبی رحمت کا انتخاب فرمایا اسے” امی” رکھا کیونکہ جسے معلم بنانا تھا وہ کسی انسان کا شاگرد کیسے ہو سکتا تھا آپ کو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دارالارقم کو اسلام کی پہلی اور مدینہ منورہ میں اور مسجد نبوی سے متصل چبوترے کو دوسری باقاعدہ درسگاہ بنایا ۔ آپ کے کاشانے مبارک بھی ایک طرح سے تعلیمی ادارے ہی تھے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے امت نے آدھا دین سیکھا آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ زہرا نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نے حق کی راہ میں اپنی جان دینے سے دریغ نہ کیا۔

معلم انسانیت کی حیثیت سے حضور کی سب سے اعلی صفت قول اور فعل میں ہم “آہنگی” تھی جو آپ تعلیم دیتے خود اس پر عمل کرتے نظر آتے آپ تھوڑا تھوڑا سکھاتے تاکہ مقصد حاصل ہو اور وہ علم انسان کے اخلاق و کردار کا حصہ بن جائے ورنہ نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے جاھل کے عنوان سے نظر آتا اسی طرح آسان سے مشکل کی طرف تعلیم، مہذب دنیا نے آپ کی تعلیمات سے سیکھی۔جب آپ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو خاص ہدایت کی کہ اپنے احکام اور معاملات کو لوگوں کے لیے سہولت کا باعث بنا اور انہیں خوشخبری دینا، نفرت نہ دلانا۔

ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے پیش امام کی شکایت کی کہ یہ بہت لمبی لمبی نمازیں پڑھا تے ہیں تو آپ نے خفگی کا اظہار فرمایا کہ خیال رکھو بزرگ بیمار اور اپنی ضرورت سے جانے والے لوگ بھی نماز میں ہوتے ہیں آپ کی تعلیم میں دنیاوی اور دینوی تعلیم کی تفریق نہ تھی بلکہ ہر وہ علم جو نبی کے ساتھ مخلوق کے فائدے کے لئے ہو وہ دینی کی شاخ تصور کیا گیا۔

غزوہ بدر میں جنگی قیدی جو فدیہ نہیں دے سکتے تھے ان کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں تو یہی ان کا فدیہ ادا کرنا ہوگا اگر ہم آج بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریہ تعلیم کے مطابق اپنے تعلیمی نظام کی تنظیم نو کریں تو مدرسہ جامعہ اور یونیورسٹی کا فرق ختم ہو جائے ۔ مسٹر اور ملا کی تفریق مٹ جائے۔دینی اور دنیاوی علم و فن کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ قوم کو صالح اور “حقیقی عالم و قیادت” میسر آجائے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معلم انسانیت کے نظام تعلیم سے فیض اٹھانے والا بنائے آمین ثم آمین