“مہنگائی کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری”

“یہ چائنا کی جیکٹ ہےدیکھیں کتنی گرم ہے “دوکاندار نے چمڑے کی جیکٹ دکھاتے ہوئے کہا، پاکستان کی جیکٹ دکھائیں، وہ پہلے آتی تھیں اب نہیں آتیں اب صرف چائنا کی جیکٹس مارکیٹ میں مل رہی ہیں۔یہ واقعہ چند دن پہلے کا ہے جب خریداری کی غرض سے بازار جانے کا اتفاق ہوا۔

یہ ایک حقیقت ہے مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کار، مزدور، کاریگر سب کام چھوڑ کر بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جتنا سرمایہ اور محنت وہ لگاتے ہیں اتنا اس کا منافع حاصل نہیں ہوتا لہذا وہ کسی اور ذریعہ سے پیسہ کمانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہر شخص پریشان ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 14.48 فیصد اضافہ ہوا ہے کم آمدن والے افراد کے لیے یہ اضافہ 15.72 فیصد ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران ایل پی جی کی قیمتوں میں 75فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں61. 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کھانے پینے کی اشیاء کا جائزہ لیں تو ایک سال کے دوران سرسوں کا تیل 46.49 فیصد گھی 44.25 فیصد اور کھانے کا تیل 40.78 % مہنگا ہوا۔ گزشتہ ایک سال کی نسبت پٹرول 32.22 فیصد اور ڈیزل کی قیمت میں28.91 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اسی طرح روپے کی قدر میں تیزی سے ہوتی کمی اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک میں حالیہ عرصے کے دوران اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا۔

 بڑھتی  ہوئی مہنگائی اور اس کے ختم نہ ہونے کے آثار نے ہر شخص کو مشکل میں ڈال رکھا ہے خاتون خانہ ہے تو وہ پریشان ہے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، علاج معالجے اور دیگر ضروریات زندگی سے لے کر باورچی خانے اور تعلیمی اخراجات حد سےبڑھ گئےہیں۔ مزدور کی مزدوری گھریلو ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ غریب کا تو برا حال ہے ہی امیر بھی مہنگائی کے اثرات سےمحفوظ نہیں پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے گاڑی مالکان کو بھی متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر درمیانی طبقہ جوملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے بری طرح پریشان ہے۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات ،گھریلو ضروریات، علاج معالجے کے اخراجات کا خرچ ایک تنخواہ میں کہاں سے پورا کریں۔

 حکمرانوں کے مہنگائی ختم کرنے اور آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنے کے دعوے ناصرف دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ ملک اس دلدل میں مزید پھنستا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے نے ہر چیز کی قیمت آسمان تک پہنچا دی ہے۔ غریب کا تو اللہ ہی حافظ ہے مگر حکمرانوں کو بھی تو اس نے کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ انہیں ملک اور عوام پر نگران بنایا ہی اس لیے ہے کہ وہ ملک کے نظام کو درست کریں اور عوام کے لیے سہولیات فراہم کریں۔

 مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کر کے اقتدار حاصل کرنے والوں نے برسراقتدار آ کر مہنگائی ختم کرنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ بلکہ الٹا آئی ایم ایف سے نئے قرضے لے کر ملک کو گروی رکھوا دیا اب جو وہ کہتے ہیں کہ پٹرول مہنگا کر دیں تو پیٹرول مہنگا کر دیا جاتا ہے۔ کوئی اور مطالبہ کریں تو وہ بھی پورا کرنا پڑتا ہے۔ خود حکمران طبقہ امیر اور مراعات یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے انہیں آٹے دال کا بھاؤ تک معلوم نہیں اگر معلوم بھی  ہو تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے کی فراوانی کے باعث ہر چیز ان کی پہنچ میں ہے مگر جس کی تنخواہ بیس ہزار ہو اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہو اس کے بچے بھی پڑھ رہے ہوں یا ایک شخص جو دیہاڑی دار مزدور ہے روز کی آمدنی سے اس کا گزارا ہوتا ہے۔اگر کسی دن کام پر نہ جا سکے تو گھر والوں کی ضروریات کیسے پوری کرے۔

گزشتہ روز اخبارات میں خود کشی کے واقعات شائع ہوئے جن کی وجہ غربت اور بیروزگاری تھی یعنی نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ لوگوں کا دین اور ایمان بھی خطرے میں پڑ گیا مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی خدارا ہوش کے ناخن لیں ریاست مدینہ کی سربراہی کا حق ادا کریں ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کریں اور عوام کو سہولیات فراہم کریں کسانوں اور سرمایہ کاروں کو سبسڈی دیں تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ملکی ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی کرکے ملکی مصنوعات کو فروغ دیں۔

آج کل تو صورتحال یہ ہے کہ غیر ملکی مصنوعات اور کمپنیوں کی اجارہ داری ہے ٹی وی چینل کھول کر دیکھیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات اور ٹیلنٹ ایوارڈ شوز کے ذریعے عریانی اور فحاشی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس میں مہنگائی کا بھی عمل دخل ہے؟ یہ کمپنیز حکومت کو لاکھوں میں ٹیکس ادا کرتی ہیں اس لئے ان پر پابندی بھی نہیں لگائی جاسکتی مہنگائی نہ ہو تو یقینا ان کے مدمقابل بھی سامنے آئیں اور ان کے متبادل عوام کو میسر آ سکیں گے۔ حکومت ایک بڑی طاقت ہے اگر متعلقہ حکام اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہیں تو یہ کچھ بھی مشکل نہیں۔