اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے سرطان کی آگاہی کا مہینہ

کینسر ایک ایسی جینیاتی بیماری ہے جس میں جسم کے خلیے بے قابو ہو کر تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ یہ نارمل خلیوں کو تباہ کر کے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ جسم میں خلیوں کے بننے اور ختم ہونے کا قدرتی نظام موجود ہے جو بگڑ جاتا ہے۔ پرانے خلیے اپنے متعین وقت پر ختم نہیں ہو پاتے اور نئے خلیے بلا ضرورت بنتے رہتے ہیں۔ یہ خلیے ایک گچھے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو ٹیومر کہلاتا ہے جو آگے چل کر کینسر بن جاتا ہے۔

اس وقت دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا موذی مرض کینسر ہے۔ دنیا بھر میں 70 سال سے کم عمر افراد کی اموات کی دوسری بڑی وجہ کینسر ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق 2040 تک دنیا بھر میں کینسر کے کیسز کی تعداد 60 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

ورلڈ کینسر لیڈر کانفرنس کے ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں کینسر کی تیزی سے پھیلنے کی بڑی وجوہات تمباکو نوشی، ناقص غذا، سست طرز زندگی اور دن بھر بیٹھے رہنا ہے۔ کینسر یا سرطان موروثی طور پر بھی منتقل ہوسکتا ہے۔یہ خاموشی سے جسم میں پلنا شروع کرتا ہے اور اس مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ دوسرے یا تیسرے اسٹیج پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ ہر اگلا سٹیج صحتیابی کے امکانات کم کرتا جاتا ہے۔ ابھی تک جسم کے کئی قسم کے کینسر دریافت ہو چکے ہیں۔ سائنسدان ان کے علاج کے لئے مستقل ریسرچ کر رہے ہیں۔

ہر سال اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ شمار ہوتا ہے۔ اس مہینے میں لوگوں میں آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں۔ عورتوں کو ہونے والے کینسر میں چھاتی کا کینسر سرِفہرست ہے جو عورتوں میں اموات کا بڑا سبب ہے۔ اس حوالے کافی کام ہوا ہے مگر اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو اس کی سنگینی کا شعور دیا جا سکے۔ آئیے اس مرض کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔

یہ مرض کس عمر میں لگ سکتا ہے؟ جوں جوں عمر بڑھتی ہے اس مرض کے لاحق ہونے کے کا خدشات بڑھتے جاتے ہیں۔ عموما 50 سے 60 سال کی خواتین میں یہ زیادہ ہوتا ہے۔ مگر کم عمر خواتین میں بھی اب اس کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ جن خواتین کو ایک بار بریسٹ کینسر ہو چکا ہو ان کو دوبارہ ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

کیا اسکی فوری تشخیص ممکن ہے؟ دوسرے اقسام کے کینسر کی طرح عام طور پر ’بریسٹ کینسر‘ کی تشخیص بھی اس وقت ہوتی ہے جب وہ دوسری یا تیسری اسٹیج پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔

کیا بریسٹ کینسر صرف خواتین کو ہوتا ہے؟ اسکا جواب ‘نہیں’ ہے۔ مردوں کو بھی اس مرض سے خطرہ ہے۔ بلوغت تک لڑکوں اور لڑکیوں کے چھاتی کے خلیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں میں بریسٹ ٹیشوز کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ اس لئے یہ سرطان مرد و عورت کی تخصیص نہیں کرتا البتہ خواتین میں اس کا تناسب مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔برطانیہ میں ہر سال تقریبا 390 مرد اس کینسر کا شکار ہوتے ہیں جبکہ اس کی بہ نسبت خواتین کی تعداد تقریبا ساٹھ ہزار ہے۔

کیا کینسر موروثی مرض ہے؟ کسی خاندان میں ماں بہن بیٹی کو کینسر ہو تو اسی خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین میں اس بات کے امکان بڑھ جاتا ہے۔ اگر ایک بریسٹ میں کینسر ہو تو دوسرے میں ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔

افزائش نسل کے نظام کا بریسٹ کینسر کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اگر حیض کا عمل 12 سال سے کم عمر میں شروع ہو جائے یا 55 سال کے بعد ختم ہو تو اس مرض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جن خواتین کے بچے عمر کے آخری حصے میں ہوتے ہیں یا جو بانجھ ہوتی ہیں یا وہ خواتین جو اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں ان میں اس مرض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جو خواتین دن بھر میں مناسب ورزش نہیں کرتیں سستی اور موٹاپا کا شکار ہوں تو وہ کینسر کا آسان شکار ہو سکتی ہیں۔

پاکستان میں چھاتی کا سرطان ایشیا میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، ہر سال تقریباً نوے ہزار کیسز کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے چالیس ہزار خواتین موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔  عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستانی عورتوں میں چھاتی کے سرطان سے مرنے کی شرح 26.76 فیصد ہے۔ پاکستان میں آج بھی بریسٹ کینسر کی پہلی سٹیج پر تشخیص چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ ہے۔

جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو چھاتی کے سرطان کی علامات کے بارے میں علم ہی نہیں اور اگر علم ہو بھی جائے تو وہ ڈاکٹر کے پاس جانے میں اس قدر تاخیر کر دیتی ہیں کہ اس وقت تک مرض آخری سٹیج تک پہنچ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں وقت پر تشخیص نہ ہونے کی وجہ ایسے سینٹرز کی کمی یا ان کا عام عورت کی پہنچ سے دور ہونا بھی ہے۔

ثقافتی طور پر ہم بریسٹ کینسر کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتے۔ اسے ہمارے معاشرے میں ٹیبو شمار کیا جاتا ہے۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے بات کرنا بےشرمی اور بےحیائی تصور کی جاتی ہے تاوقتیکہ کوئی اس کا شکار نہ ہو جائے۔ یاد رکھیں یہ کسی بھی دوسرے مرض کی طرح ایک مرض ہے ۔ ہمارے ہاں ایسی خواتین پر ترس تو کھایا جاتا ہے مگر معاشرہ کہ ان کو مکمل سپورٹ کرنے سے قاصر ہے۔ ان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے حتی کہ بعض صورتوں میں وہ خاندانی سپورٹ سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے کچھ بےبنیاد افواہیں ہیں جو ہمارے ہاں رائج ہیں مثلاً اسے وبائی مرض تصور کیا جاتا ہے اور مریض کو اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے اس کے ساتھ کھانے پینے سے احتراز برتا جاتا ہے۔

 پرفیوم، ڈیوڈرنٹ، پسینہ خشک کرنے والے اسپرے، انڈرگارمنٹس، کیفین، پلاسٹک کے بنے ہوئے کھانے کے برتن، مائیکرو ویو اوون اور موبائل فونز بھی بریسٹ کینسر کے اسباب بتلائے جاتے ہیں۔ یہ سراسر بے بنیاد باتیں ہیں البتہ ان تمام کے دیگر نقصانات ہو سکتے ہیں۔

ہم کیا کریں ؟ اس مرض کے بارے میں آگاہی حاصل کریں اور آگاہی پھیلائیں۔ اپنے جسم کی سرگوشیوں کو نظر انداز مت کریں۔ اپنا ذاتی معائنہ خود کریں اس کے لئے صرف پانچ منٹ درکار ہیں۔ اگر کوئی بھی ایسی بات محسوس ہو جو غیر معمولی ہے تو بروقت چیک اپ کرائیں۔چھاتی یا بغل میں کسی قسم کی گلٹی کا محسوس ہونا۔ دودھ کے علاؤہ کسی قسم کے مواد کا خارج ہونا۔ چھاتی کے سائز یا رنگ کا تبدیل ہو جانا یا بغل یا چھاتی کی سوجن، کمر کے بالائی حصے میں درد ہونا یہ وہ سب الارم ہیں جو آپ کا جسم آپ کو دے رہا ہے جو کسی صورت بھی نظر انداز مت کریں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے ہر گلٹی کینسر نہیں ہوتی۔ ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو میموگرافی لازمی کرائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ابتداء ہی میں اس مرض کی تشخیص ہو جائے گی اور علاج ممکن ہو سکے گا۔ اس کے علاؤہ اپنا ذاتی معائنہ خود کیجئے۔

 اس سلسلے ایک کورین ڈیزائنر نے بریسٹ کینسر کی ممکنہ بارہ علامات کو لیموں کی مدد سے دکھایا ہے اور اس کا نام ” اپنے لیموں پہچانیں” (know your lemons) رکھا ہے۔ یہ تصویر آپ کو انٹرنیٹ پر کہیں بھی آسانی سے مل جائے گی اس سے اپنے ذاتی معائنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ خود بھی جانیں اپنے پیاروں کو بھی بتائیں کیونکہ زندگی اللّٰہ تعالی کا قیمتی تحفہ ہے اس کی قدر کریں۔