مہنگائی کا طوفان

ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں ایک جانب کورونا وائرس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے تو دوسری طرف مافیا نے اشیاء خوردونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کو نا جائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے جس سے ایک جانب عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف ملک میںآٹے، چینی، گھی، تیل، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتو ں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔

غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے جبکہ اکثر عوام کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اورکبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کوبڑھادیا جاتا ہے تو کبھی بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیںآسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیںجس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں حکومت مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لئے سوائے زبانی جمع خرچ یا بیانات دینے کے عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی۔

وزیراعظم اور ان کی کابینہ حکومت میں آنے سے لے کر اب تک سے قوم کو سبز باغ دکھانے کے سوا کچھ نہیں کر سکی۔ اشیائے خورد نوش جیسے چینی، آٹا، گھی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری جانب اب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے جو اثرات عام آدمی کی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں ان کو سمجھنے سے یہ حکومت قاصر نظر آتی ہے۔کچھ دن پہلے پٹرول اوراشیائے خورد و نوش کے مزید مہنگا ہونے سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آگیا ہے، کورونا کی عالمی وبا کے دوران مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ عام آدمی اپنی زندگی خود ختم کرنے میں راحت محسوس کرنے لگا ہے۔ پاکستان میں اس وباء کے دوران دوسرے ترقی پذیر ممالک جیسے ہندوستان اور بنگلہ دیش کی نسبت مہنگائی کافی حد تک بڑھی ہے۔ یہ ممالک بھی لاک ڈاون جیسی سخت صورتحال سے دو چار تھے مگر بھلا ہو انکی کابینہ کا جنھوں نے ایسے کڑے وقتوں میں بھی اپنی عوام کو ایک مضبوط سہارا مہیا کیے رکھا۔

غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور لاک ڈاون نے ملکر پاکستانی قوم کا جو حشر کیا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ موجودہ حکومت کبھی دل سے اپنا محاسبہ کرے کہ وہ جن وعدوں اور دعووں کی گود میں بیٹھ کر عوامی اکثریت سے اقتدار میں آئی ہے کیا اس نے عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے۔ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے والے وزیر اعظم نے ایک جلسے کے دوران کہا تھا کہ انکی حکومت میں پاکستان ہر سال بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا اور ہمارے دور کے پانچ سالوں میں ملک اتنا اوپر جائے گا کہ کوئی بھی پاکستانی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اب اللہ ہی جانے ملک اوپر جائے گا یا عام آدمی۔ لیکن یہ بات تو طے ہے موجودہ حکومت جس طرح غریب آدمی کو نظر انداز کر رہی ہے اس لحاظ سے غریب اوپر ضرور جائے گا کیونکہ غربت مکاؤ‘‘ مہم سے زیادہ ’’غریب مکاؤ‘‘ مہم شروع ہوچکی ہے، کیونکہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے،پاکستان ایک زرعی ملک ہے، باوجود اس کے کہ یہاں کاشتکاری پر توجہ دے کر چیزوں کو سستا کیا جاتا، ان چند مہینوں میں ہماری مقامی گندم کی قیمت آسمان کو چھونے لگی اور گندم 2400 روپے من ملنے لگی۔

قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں 18.5 فیصد اضافہ ہوا۔ مجھے تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس ملک میں عزت سستی اور روٹی مہنگی ہونے جارہی ہے، میں یہاں زیادہ چیزوں کا ذکر نہیں کروں گی، صرف بنیادی اشیائے ضروریہ کی ہی بات کروں گی جو روزانہ کی بنیاد پر امیر کو بھی چاہیے اور غریب کو بھی۔ ان چند مہینوں میں سبزیاں، گھی ، کوکنگ آئل، چینی یہ وہ چیزیں ہیں جس کی ضرورت ہر طبقے کو ہوتی ہے، مگر دور حاضر میں ان اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ہیںاس ساری صورتحال میں اس وقت بھی حکومتی پلاننگ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تین طرح کے فوری اقدام کرنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ حکومت کس طرح عام شہریوں کی اقتصادی قوت کو بڑھائے تاکہ عوام کے پاس مالی وسائل زیادہ ہوں۔دوم پاکستان میں گھریلو صنعت کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ فوری طور پر بے روزگاری کو قابو میں لایا جاسکے اور معیشت کو بھی تقویت ملے۔

سوم جو سب سے اہم اور بڑی وجہ شرح سود میں کمی لائی جاسکے۔ کیونکہ صنعتی طبقے پر قرضے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ کاروباری طبقہ اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی کے اثرات نے جہاں صنعتوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں، وہیں لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ وسائل کی تقسیم اوپر سے نیچے تک ہوتی ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ غیر منصفانہ تقسیم کے باعث معاشرے میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور ان سارے مسائل کی ایک ہی جڑ مہنگائی اور غربت ہے۔