اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب سے ملنا

اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب سے ملنے کو دل چاہا تو سفر معراج رونما ہوا ۔سدرۃالمنتہی تک پہنچے تو حضرت جبرائیل نے آگے جانے سے معزرت فرمائی۔ اللہ آپ سے ملاقات اکیلے میں کرنا چاہتے ہیں ۔کیا ہی محبت کی چاشنی ہے اس تعلق میں۔ محبت یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہے جو نبی مہربان کو پتھروں کے ایک غار ( غار حرا ) میں پہنچا دیتی ہے جہاں اللہ آپنے محبوب سے راز و نیاز کرتے ہیں۔ لمبے سجدوں میں دعا کے لئے اٹھتے ہاتھوں میں رب سے سرگوشیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہ سلسلہ چلتا ہے تو وحی پہ وحی نازل ہوتی ہے۔

میں نے قرآن مجید پڑھا اس کا ترجمہ بھی پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی ص سے محبت کا اندازہ ہوا کہ اپنے محبوب کو کہیں بھی نام سے نہیں پکارا۔ وللہ محبت میں بھی کتنی عقیدت ہے نا جبکہ باقی تمام انبیاء کا نام لے کر مخاطب کیا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”اے آدم !تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو۔ (سورہ الاعراف 19)”

” اے موسیٰ! ڈرو نہیں (النمل۔20)

“”اے ابراہیم ! تم نے خواب سچ کر دکھایا(الصافات۔104-105)

“اے یحییٰ!کتاب کو مضبوطی سے تھام لو(مریم۔112)

” اے زکریا! ہم تمہیں ایسے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جسکا نام یحییٰ ہوگا-(مریم-7)

” اے نوح !اب کشتی سے اتر جاؤ۔ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں لے کر(ھود-48)”

لیکن جب اللہ نے اپنے پیارے حبیب ص کا ذکر کیا تو فرماتے ہیں ” یا ایھا النبی” اے نبی ص ! آپ کا رب بلا رہا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے اللہ کے ہاں ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کر نہیں بلاتے سورہ فاتحہ سے لے کر سورہ الناس تک پورے قرآن میں،

“اے نبی ص!اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مانو(الاحزاب )

“اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے رات کو نماز میں۔ کھڑے رہا کرو لیکن کم۔(المزمل۔1-2)

“اے چادر اوڑھنے والے ۔اٹھو اورلوگوں کو خبردار کر دو۔(المدثر)

اللہ نبی ص کو نام لے کر نہیں بلاتے سوائے اس کے کہ ان کو نبوت و رسالت سے جوڑنا ہو ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

“اور محمد! ایک رسول ہی تو ہیں (آل عمران ۔144)

“محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہیں” (الاحزاب۔40)

یہ تھی اللہ کی اپنے پیارے محبوب سے محبت ۔تبھی تو کہہ دیا کہ اطیعو اللہ واطیعوا لرسول ۔کہ میری اطاعت رسول کی اطاعت ہے ۔ایسے محبت نا کبھی دیکھی اور نا دیکھنے کو کبھی ملی ۔

اسی طرح  حضرت اویس قرنی رح کو جب معلوم ہوتا ہے کہ نبی ص کے غزوہ احزاب میں دندان مبارک شہید ہو گئے تو انہوں نے محبت کے عالم میں پتھر سے اپنے دانت توڑ لئے۔

ایک بار حضرت عمر فاروق رضہ اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیاکی ہرچیز سے زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! جب تک تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہیں جانوگے اس وقت تک تم سچے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ “

تب ” عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمر !اب جبکہ تم نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب سمجھاہے تو اب تمہاراایمان کامل ہوگیا۔ “ (بخاری ۔حدیث نمبر6632)

ہمارے ایمان کے کامل ہونے کی شرط ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہے ۔ نبی مہربان صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت  ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کے لئے روشنی کا مینارہ  ہے اس دستورِ حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا نہ بادشاہ و فقیر کا،  زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے، ماہ ربیع الاول میں محبت کا دم بھرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنی زندگی کا، اتباع رسول اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوی کا جائزہ لیں، غوروفکر کریں، کہ کیا واقعی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہیں، اور تعلیمات نبوی پر عمل کررہے ہیں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستے پر ہمیں گامزن کیا تھا اس پر برقرار ہیں؟ امت مسلمہ کو جن چیزوں سے روکا گیا تھا اب بھی ہم اس سے رکے ہوئے ہیں یا نہیں؟

ایک نعرہ نبی ﷺ سے محبت کا لگایا جاتا ہے ۔کہ “غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے”

کیا آج امت محمدیہ نے یہ سوچا کہ غلامی رسول میں نماز بھی قبول ہے ؟ غلامی رسول میں گناہ چھوڑ دینا بھی قبول ہیں؟ غلامی رسول میں علم دین سیکھنا بھی قبول ہے ؟غلامی رسول میں مومن بننا بھی قبول ہے ؟

دراصل ہم نے عشق رسول کو مزاق بنا لیا ہے۔ ہم زبان سے عشق نبی ﷺ کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملاً اپنے نبی کا کہنا نہیں مانتے ۔تو ہم عاشق کیسے ہو سکتے ہیں ؟؟؟آج ہم اس مہینہ کی آمد پر اپنے گھروں، محلوں، بستیوں اور شہروں کو مجلسوں سے آباد تو کر لیتے ہیں لیکن اپنے دل کی تاریکیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات سے منور نہیں کرتے، عطر وخوشبو سے تو اپنے آپ کو اور اپنے گھروں کو تو معطر کرلیتے ہیں، مگر اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے معمور نہیں کرتے، ہماری راتیں گھومنا پھرنا اور عمدہ کھانا کھانے میں تو گزر جاتی ہیں پر ہم اسے اعمال حسنہ سے منور نہیں کرتے،

محسنِ کائنات ﷺ نے انسانوں کے لئے جو دستورِ حیات دیا اور جو نظام زندگی دیا اسکے بارے فرمایا کہ جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے وہ مصطفی سیرت میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارےـ

لیکن المیہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ اپنے نبی مہربان کے عظیم فرمان کو فراموش کرچکی ہے، اسوہ رسول کو اپنی زندگی سے نکال چکی ہے، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کے باب میں تعلیمات نبوی سے بہت دور ہوچکی ہے، اپنا کلچر، تہذیب وثقافت کو چھوڑ کر غیروں کی تہذیب کو اپنا نے لگی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم ذلت ورسوائی سے دوچار ہے، ہر میدان میں پچھڑتی نظر آرہی ہے،

آج کے مسلمانوں کا المیہ دیکھیئے کہ ماه ربیع الاول کی آمد پر طرح طرح کی خرافات کرتے ہوئے عاشق رسول ہونے کا دعویٰ کرتے  ہیں، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیک کاٹا جارہا ہے اور سب لوگ ہیپی برتھ ڈے ٹو یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہیں، بے عمل اوباش قسم کے نوجوان فلمی گانوں پر ناچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عاشقان رسول ہیں (نعوذ باللہ )کیا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے؟

کیا یہی آپ کی تعلیمات ہیں؟

کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق کوئی ہو سکتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا مہینہ اس صحابہ اکرام کے عہد میں بارہا آیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دو بار، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں دس بار، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بارہ بار، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں چار بار آیا، مگر کوئی بھی ایک فرد اس دور کے متعلق ایک بھی ایسی روایت دکھا سکتا ہے؟ جس میں میلاد کے جشن و جلوس کا تذکرہ ہو؟

بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے  ہم زیادہ سے زیادہ سیرت کے پیغام کو عام کریں، دنیا کو تعلیمات نبوی سے آگاہ کرانا وقت کا اہم تقاضاہے،

اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور پوری دنیا ہر طرح کی سہولتوں اور ترقیات کے باوجود جن پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے، ظلم وزیادتی کا دور دورہ ہے ہر طرف ایک دوسرے کے حقوق کو مارتا ہوا نظر آتا ہے، ہر ایک کو دوسرے سے شکایت ہے ہر طرف خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اس کا علاج اگر کہیں ملتا ہے تو وہ پیغام محمدی کے دستور حیات میں ملتا ہے، دنیا کی ہر طرح کی پریشانیوں کا حل آپ کا بتایا ہوا نظام ہے ۔

جب تک عشق ہمارے کردار میں ڈھل نہیں جاتا تب تک روحانی، دنیاوی اوراخروی فوائد نہیں ملیں گے۔

بحثیت مسلمان ہمیں یہ سوچنا ہو گا عشق کا دعویٰ تو ہم کرتے ہیں لیکن لیکن آنے والی اپنی نسلوں میں عملی طور پر لانے کی کس قدر کوشش کر رہے ہیں۔ کہ جب اس عشق کے دعوے کے ساتھ جب ہمیں عشق کے معیار کی کسوٹی میں پرکھا جائے گا تو وہ تبھی کامیاب ہو گا جو عملی طور وہ چیزیں اپنائیں جو عشق کی کامیابی کے لئے ضروری ہو اور ہمارے سرخرو ہونے کے لئے بہت ضروری ہوں۔