اُم المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا 

حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سکران بن عمرو الانصاریؓ کی بیوہ سودہؓ بنت زمعہ سے نکاح کیا۔ یہ بی بی ان عورتوں میں تھیں جنہوں نے دین و ایمان کی خاطر اپنے خاندان، اعزاء و اقربا کو چھوڑ دیا اور اس راستے پر چلنے کے لئے ہر طرح کی مشکلات اور تکلیفیں برداشت کیں۔ آپؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ اسلام کی خاطر ملک حبشہ (آج کل اری ٹیریا) کی طرف پہلی ہجرت میں شرکت کی اپنے خاندان اور گھرانے یعنی بنو عبد شمس کو ناراض کیا۔ یہ لوگ بڑے دولت مند اور طاقت ور تھے مگر انہو ں نے ان کی کوئی پرواہ نہ کی۔آپ کے والد کا نام زمعہ بن قیس اور والدہ کا نام شموش بنت قیس تھا۔ آپ کی پیدائش ۵۷۱ء میں ہوئی۔

 آپ کے شوہر سکران بن عمروالانصاری حضور کے جاں نثار اور وفا دار صحابہ میں تھے وہ اسلام پر مر مٹنے والے سچے فدائی تھے۔اسی وجہ سے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور ہر ہجرت میں حضرت سودہ بھی شریک رہیں۔ حضرت سکران کی حبشہ میں وفات ہو گئی تو حضرت سودہ بالکل تنہا اور بے سہارا رہ گئیں۔ کوئی مدد گار اور کفالت کرنے والا نہ رہا۔ کیونکہ خاندان والے اسلام کے سخت دشمن تھے اگر  وہ ان کے پاس جاتیں تو وہ انہیں ستاتے سختی کرنے اور مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ انہیں دین اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتے اور اگر وہ اسلام نہ چھوڑتیں تو بہت ممکن تھا کہ انہیں قتل کردینے سے بھی باز نہ آتے۔ حضرت سودہ کے کوئی اولاد بھی نہ تھی۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان کے حالات کا علم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بڑی ثابت قدم ہیں اور اسلام سے ہر گز پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں اور ان کے خاندان والے اللہ اور رسول کے سخت دشمن ہیں۔ لہٰذا اس نازک گھڑی میں حضور نے ان کی کفالت فرمائی اور انہیں اپنی زوجیت میں لینے کا اظہار فرمایا تاکہ انہیں شوہر سے جدائی اور اسلام پر ثابت قدمی کا بدلہ دیں اور وہ جس تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں اس سے نجات دیں ۔ ان کے خاندان بنو عبد شمس سے رشتہ بھی ہو جائے جو اللہ اور رسول کے شدید دشمن تھے۔حضرت سودہ ؓکی عمر اس وقت پچاس سال تھی۔ حضور کی طرف سے حضرت خولہ بنت حکیم نے شادی کا پیغام پہنچایا اور حضرت سودہؓ کے والد نے نکاح پڑھایا۔

 یہ شادی حضرت سودہؓ کے دین اسلام کی پختگی، اخلاص اور شوہر کی جدائی کے غم کا بہترین بدلہ تھیں۔ حضرت سودہؓ کے ساتھ اس سلوک اور عنایت کو لوگوں نے بڑی پسندیدگی سے دیکھا اور بڑی تعریف کی۔ ان کی قوم اور خاندان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے جو دشمنی اور عداوت کی آگ بھڑک رہی تھی اس میں بھی بڑی کمی آئی اور حضرت سودہ ؓکی ہلاکت کا اندیشہ بھی جاتا رہا۔

اس شادی کی برکت سے حضرت سودہؓ کے خاندان کے بہت سے لوگوں نے دین اسلام قبول کیا۔ یہ اسلام کی ایک بڑی فتح تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فیاضی اور اخلاق کریمانہ کا کرشمہ۔حضرت سودہؓ نے تقریباً۷۲ سال کی عمر میں ۱۹ سن ہجری مطابق ۶۴۰ سن عیسوی میں مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔

آپ ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ دراز قد تھیں۔ ایثار، سخاوت اور فیاضی میں ممتاز مقام رکھتی تھیں۔ کچھ حد تک ظرافت بھی مزاج میں تھی۔ دجال سے بہت ڈرتی تھیں۔