ہمارے اقدامات ہمارا مستقبل

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے زیر اہتمام ہر سال 16 اکتوبر کو عالمی یوم خوراک منایا جاتا ہے۔ انیس 1989 میں اس ادارہ کی بیسویں جنرل کانفرنس میں یہ دن باقاعدہ طور پر منانے کی منظوری دی گئی تھی، اس وقت سے آج تک اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک میں عالمی یوم خوراک منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا اور خوراک کی قلت کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنا، عالمی خوراک کے مسئلے سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنا، اور ناقص غذا اور غربت کے خلاف جدوجہد کرناہے۔ مستقبل میں غذائی قلت جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیا ر کر نا ہے،تا کہ آنے والی نسلوں کو غذائی قلت کے عذاب سے بچا یا جاسکے۔

رواں سال عالمی یوم خوراک کا موضوع ہے “ہمارے اقدامات، ہمارا مستقبل” (our actions are our future)

ہم جو خوراک استعمال کرتے ہیں اور جس انداز میں ہم اس کا استعمال کرتے ہیں وہ ہماری زندگی، صحت ، ماحول اور ہماری زمین کو متاثر کرتی ہے۔ ہماری زراعت کا نظام اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے اٹھائے گئے اقدامات ہمارے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔

ستمبر کے اواخر میں ہونے والی کانفرنس میں 150 ممالک نے عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے پلیٹ فارم سے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کئے جانا بےحد ضروری ہیں۔

گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زائد افراد دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ 22 ممالک ایسے ہیں جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں، ان میں سے 16 ممالک میں قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھا۔عالمی ادارہ خوارک کے مطابق سنہ 2019 کے اختتام پر دنیا بھر میں ساڑھے 13 کروڑ افراد کو ’شدید بھوک‘ کا سامنا تھا اور اب چونکہ عالمی وبا کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کو لاک ڈاؤن ہے تو یہ تعداد رواں برس بڑھ کر ساڑھے 26 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

ماہرین کے مطابق سال 2020-21 میں دنیا کو دوسری جنگ عظیم کے بعد عظیم بحران کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ سے منسلک بین الاقوامی زرعی ترقیاتی فنڈ IFAD نے کورونا وائرس کے بعد دنیا میں غذائی بحران کے سدباب کے لئے اپیل کی ہے۔

خوراک اور غذائیت کے امور سے متعلق ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر نینسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور سرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ ان دونوں اداروں نےخوراک کے نقصان اور ضیاع کو روکنے کے لئے اقدامات کی اپیل کی ہے، جو ان کے بقول، دنیا بھر میں بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 900 ملین ٹن سے زیادہ کھانے کی اشیا ضائع کر دی جاتی ہیں۔خوراک کے اس ضیاع میں 60 فیصد حصہ گھریلو جبکہ 17فیصد دکانوں ریستورانوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔

اس وقت ساری دنیا عالمی وبا کا شکار ہے۔ اکثر اداروں نے ملازمین کی تعداد نصف سے بھی کم کر دی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کو مشکلات کا سامنا ہے۔ایسی صورت میں ہم خوراک کے ضیاع کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ صرف پاکستان ہی میں پانچ کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں پیٹ بھر روٹی میسر نہیں، جبکہ امراءکا ایک بڑا طبقہ خوراک وافر مقدار میں میسر ہونے کے باعث استعمال نہ کرکے ضائع کردیتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب جنگوں، بھوک اور عالمی وبا سے متاثرہ علاقوں میں غذائی قلّت کا سامنا ہے، تو دوسری جانب پُرامن اور ترقی یافتہ علاقوں میں غذا کا زائد استعمال فربہی او رموٹاپے کا سبب بن رہا ہے، خاص طور پر جنک فوڈز کے استعمال کے نتیجے میں صحت کے مسائل عام ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 1.9 ارب افراد وزن کی زیادتی کا شکار ہیں جن میں سے 600 ملین شدید موٹاپے (obesity) میں مبتلا ہیں۔ جسمانی ضرورت سے زائد خوراک بھی خوراک کا زیاں ہی شمار ہوتا ہے۔

دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 77 ہزار سے زیادہ بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ غذائیت کی کمی ہے۔

اس عالمی وبا میں جو ایک اور مسئلہ سامنے آ رہا ہے وہ ریڈی میڈ فوڈ کا بڑھتا ہوا رجحان اور فاسٹ فوڈ کلچر ہے۔ جہان بہت سے لوگوں نے بےروزگاری کے سبب اپنے چھوٹے کاروبار شروع کئے ہیں وہیں بہت سے بڑے ناموں کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔ ہر قسم کے کھانے اب گھر کی دہلیز پر بنا تردد کے پہنچ رہے ہیں اور عوام کو دلکش ڈیلز میں الجھایا جاتا ہے۔ افلاطون نے کسی ترنگ میں کہا تھا کہ ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں، ایک امیروں کا ایک غریبوں کا، دونوں کے اخلاق و عادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

کرونا وائرس میں ایک خاص قسم کی نفسیات نے جنم لیا ہے جس میں مالدار طبقہ ہر چیز گھروں جمع کر رہا ہو۔ جس کی وجہ سے بازار میں اشیائے خوردونوش کی شدید کمی اور کچھ چیزوں کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ تاجر بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے اور خود ساختہ قلت اور اشیائے ضروریہ مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں۔ پاکستان پہلے ہی مہنگائی میں اضافے کا شکار ہے پھر اس طرح کے حالات میں مالدار طبقہ تو خریداری کر سکتا ہے مگر ہم مزدور اور غریب طبقے پر نظر ڈالیں تو آئے روز کے لاک ڈاؤن نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے غریب مزدور طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں ایسے مزدوروں اور ان کے گھرانوں کی اکثریت ہے۔ جن کے لئے کورونا وائرس بھوک اور فاقے بھی ساتھ لایا ہے۔ بہت سی سماجی فلاحی تنظیمیں مستحق شہریوں کی مدد کر رہی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے تمام پاکستانی گھرانوں کے بھوک کے مسائل ختم ہو گئے ہیں۔ کرونا وائرس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے والے لندن کے امپیریل کالج کے محققوں کا کہنا ہے کہ بہت سی غریب آبادیوں اور غریب ملکوں سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ظاہر ہوا ہے کہ کرونا سے ہونے والی اموات اور غربت کے مابین گہرا تعلق ہے۔

غور کرنے کی باتیں:

خوراک کا عالمی دن کیسے منایا جائے؟ ،خوراک کی اہمیت پر کتابیں پڑھیں۔ لوگوں میں خوراک کے ضیاع کو روکنے کا شعور اجاگر کریں۔ اپنی خوراک میں کم از کم ایک فرد کا حصہ ضرور نکالیں۔ کچن گارڈن کی افادیت کے حوالے سے شعور اجاگر کریں، اتنا ہی ڈال تھالی میں بےکار نہ جائے نالی میں۔ شادی بیاہ اور دعوتوں میں کھانے کے زیاں سے بچانے کے لئے شعور اجاگر کیا جائے۔ کسانوں کو خراج تحسین پیش کریں۔ جن کی محنت کی وجہ سے ہم تک خوراک پہنچتی ہے۔