سالوں کی قید میں جکڑا تعلیمی نظام ( دوسرا اور آخری حصہ)

چھ سات سال کی عمر میں پہلی کلاس میں جانے والا بچہ  پندرہ سولہ سال کی عمر میں میٹرک تک پہنچتا ہے۔ اس عمر میں بھی اس کوطب، فلکیات، فزکس، میٹا فزکس، فلسفہ، جیومیٹری وغیرہ کا کچھ پتا نہیں ہوتا اس کا علم سکول کی کتابوں میں رٹاےٗ جانے والے سوالوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اسے کسی نئےٗ ٹاپک پر اردو یا انگریزی میں چند جملے لکھنے کو دیں تو وہ نہیں لکھ سکتا۔ مزید چار یا پانچ سال میں کالج اور پھر دو سال سے زائد یونیورسٹی میں گزار کر ایک طالب علم اپنی سی وی تک نہیں بنا سکتا۔ تحریر، تحقیق یامطالعہ کا شوق اور شعور تک نہیں ہوتا۔ ڈاکٹریٹ تک کے طالب علم کو تحقیق کے لیے  کی  اساتذہ سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ہم اس نظام میں بہت خوش اورمطمئن رہے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ایک بچہ اگر  بائیس پچیس سال کی عمر میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک کما لے تو دنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں شمار ہو جاتا ہے اللہ اللہ خیر صلیٰ۔

 کورونا کی آمد سے ہمارے علمی سکون کی دنیا میں بھونچال آ گیا ہے۔ ایک بچے نے ایک سال کے سلیبس میں اگر مثال کے طور پر پچاس مذکر مونث سو واحد جمع یا پندرہ مظامین یاد کرنے تھے تو اب کلاسوں کے دنوں کی تعداد پوری نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں رہا۔سب پلانر درہم برہم ہو گئے۔  نتیجتاً” کبھی لازمی مضامین کو حذف کر کی امتحان لیا جا رہا ہے، کبھی مفت میں پاس کر دیا جاتا ہے اور کبھی تعلیمی سال کو چھوٹا بڑا کیا جا رہا ہے۔

 مزید ٹارچر کرنے کی لیے چھوٹی کلاسوں کے سلیبس پہ ایک نا ختم ہونے والا جھگڑا شروع کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کس سلیبس کا پلہ پکڑیں گے تو ناؤ پا ر لگے گی۔ بڑے شہروں میں آن لائن کلاسوں کے ذریعے کچھ نا کچھ کلاسوں کی تعداد اور کتابوں کے صفحات پوری کرنی کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن چھوٹےا سکولوں اور چھوٹے شہروں میں نا کا فی سہولیات کی وجہ سے یہ بھی ممکن نہیں سو وہ بھی نت نئے طریقے ایجاد کر کے بچوں کے “تعلیمی سال” ضائع ہونے سے بچا رہے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ  تعلیمی سال والا کوئی الہامی نظام تعلیم ہے کہ ہم “سال” “سلیبس” اور “میٹرک”، ” ایف اے” ” بی ایس” وغیرہ سے الگ ہو کر سوچ ہی نہیں سکتے؟آئے روز سائنس دان ہمیں بتا رہے ہیں کہ آگے دنیا تبدیل ہو گی ، کورونا کی نئی نئی شکلیں آئیں گی اور اسی طرح کئی وائرس  بھی۔ ہمیں اب انہی حالات کو نارمل مان کر آگے بڑھنا ہے۔

کیا یہ حالات ہمیں مجبور نہیں کر رہے کہ ہم اسلام کی سنہری دور کا مطالعہ کریں۔ ماہر تعلیم یہ تجزیہ کریں کہ اس دور میں کس طرح طالب علم اتنی جلدی اس قابل ہو جاتا تھاکہ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں دریائے نیل پر ڈیم ڈیزائین کرنے میں مدد کرتا تھا۔نئی نسلوں کو پڑھانے کے لیے ایک نیا تعلیمی نظام ہونا چاہیے جو سالوں کی قید سے آزاد ہو، نوکری کے خوف سے آزاد ہو ۔ ایسا نظام جو کورونا جیسے کسی وائرس کے آنے سے درہم برہم نہ ہو اور اس سے استفادہ حاصل کرنے والے صدیوں تک یاد رکھے جائیں۔

تعلیم کی بنیاد سمجھنے کی صلاحیت اور نالج پر ہونی چاہیے نا کہ اس کو وقت اور یاداشت کا پا بند کر دیا جائے۔ اگر ایک طالب علم ایک ٹاپک کو سمجھ کر اس کو اپنے الفاظ میں بیان کر سکے، ایک کتاب کو پڑھ کر اس کا مفہوم سمجھا سکے، ایک فارمولہ سمجھ کر اس کو عملی سوالات میں حل کر سکے تو اس اس کو اس سے اگلے سبق ، کتاب یا فارمولے کی طرف لے جا یا جا سکتا ہے۔ اس با ت کی کوئی،  عقلی دلیل ہے کہ ایک بچے نے ایک سبق پڑھا جو کسی الف بے جیم کے بارے میں ہے اس سے اس سبق کا مورل نتیجہ یاد رکھنے کی بجائے ، اس سبق کی جزیات یاد کروائیں جائیں  اور وہ جزیات اس سے امتحان کے تین گھنٹوں میں لکھوائی بھی جا ئیں کہ مسٹر چپس نے فلاں دن کون سے کپڑے پہنے تھے اور کس سے ملنے گیا وغیرہ۔

آج کل کے تیز رفتار اور انٹرنیٹ کے دور میں تعلیمی سال والا سلیبس طالب علم کے لیے ایک انتہائی بوریت والی چیز بن چکا ہے اور اسکا مقصد سوائے  سال پورا کرنے اور میرٹ پورا کرنے کی کچھ نہیں۔ کورونا کے آنے کے بعد اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ اس نظام پر نظر ثانی کریں اور اس کے علاوہ بھی کچھ سوچیں۔ تعلیمی سال اور سلیبس کو کھینچ تان کر نئے مسائل  کے ساتھ فٹ کرنے کی بجائے ایک بہتر، تیز تر اور پر اثر نظام تعلیم کے بارے میں سوچا جائے ورنہ چند سال میں ایک ایسی کنفیوزڈ اور ناکا م جنریشن سامنے آئے  گی جس کی مثال نہ ملے گی۔ کورونا کے آنے کے بعد دو تعلیمی سال ہم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ فرسودہ سسٹم نئے مسائل کا ساتھ نہ دے پائے  گا۔