حیا زندگی ورنہ درندگی

سانیت حیا سے جڑی ہے اور ایمان اس کی بنیاد ہے جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں ، حیا احساسِ ذمہ داری ہے ، خودداری ہے ، شرم ہے، غیرت ہے عام لفظ میں لحاظ ہے ۔ ہر لمحہ بری باتوں سے ، برے رویوں سے ، برے اور لغو کاموں سے ، لباس یا نا زیبا پہناوے سے ، بے شرمی اور بے غیرتی اور لوفر لچے طرز زندگی سے بچتے رہنے کا ، ایک دن ایک وقت کیلئے نہیں ہر وقت ہر جگہ مرتے دم تک مستقل خیالات یا نیتوں کے فطور سے بچتے رہنے کا ۔ ظاہر ہے ایک اچھا انسان اپنی سی کوشش اور دعا کے سہارے ہی برائی سے بچتا اور نیکیوں پر چلتا رہتا ہے اور وہی سمجھ سکتا ہے کہ حیا کیا چیز ہے؟

یہ واقعی تہذیب ہے صحیح معنوں میں انسانیت ہے کیونکہ یہی خدا خوفی ہے ، حکم الٰہی ہے اگر رب کی نوازشوں کا ادراک نہ ہو نعمتوں کی قدر نہ ہو ، واحد نیت پر یقین نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی اور نتیجے کی فکر نہ ہو تو بندہ ، بندہ نہیں درندہ بن جاتا ہے جو اپنے ساتھ پورے معاشرے کیلئے ناسور ثابت ہوتا ہے کیونکہ اسے اپنے عظیم خالق رب سے ہی حیا نہیں تو پھر وہ کیسا ہوگا؟ جب ہم اللہ کو سنجیدگی سے لینگے تب ہی نا اعمال کی فکر اور برائی سے بچنے کا احساس جاگے گا ۔ کتنے پیارے لوگ کتنے اچھے کردار کے انسان ، بچے ، بوڑھے جوان ہمارے درمیان پائے جاتے ہیں یا جن کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں مگر پھر بھی نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کرتے کیوں ؟ انسان تو انسان جانور پرندے تک ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں مگر ہم ہیں کہ کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

ایک کلپ میں دیکھا ہرنی مر گئی تھی اور اس کا چھوٹا بچہ پریشان تھا روزانہ ایک بکریوں کا ریوڑ سامنے سے گزرتا ہرنی کا بچہ بھاگ کرجاتا اور ایک بکری کے تھنوں سے تیزی سے دودھ چوسنے لگتا مہربان بکری اور اس کا رکھوالا یہ کام آسانی سے کرنے دیتے، بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے یہ واقعات ہمیں دکھا کر ہمارے رتبے کا احساس جگانا چاہتا ہے۔

اسی طرح آج ہی میں پڑھ رہی تھی کہ اشفاق احمد مرحوم کی کوششیں اور کاوشیں کس طرح آج بھی لوگوں کیلئے درسِ عبرت بنی ہوئی ہیں ۔ فرماتے ہیں چلہ کشی کے سلسلے میں سندھ کے علاقے “تھر”جو کہ صحرا ہے یعنی صحرائے تھر میں کسی مقام پر انہیں ڈیرا لگا کر رہنے کا اتفاق ہوا ۔ بستیوں کے قریب ہی ڈیرا تھا ۔ ایک بستی سے لوگ نکلتے بکریاں ، جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے اور کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے ۔ ان ہی میں سے ایک نو عمر پندرہ سولہ سالہ لڑکا بھی تھا جو سر پر بڑا سا ٹوکرا کبھی خربوزے کبھی تربوز کارکھ کر نکلتا اور اسکے پیچھے ایک ننھی بچی چھ سات سال کی پیچھے پیچھے جاتی ۔ میں نے معلوم کیا تو پتا چلا کے اسکے والدین مرچکے ہیں اس لئے لڑکا بستیوں میں جا کر پھل فروٹ بیچتا ہے اور بہن کو ساتھ لے جاتا ہے اکیلے کبھی نہیں چھوڑتا لہٰذا ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اسے بلا یا اور پوچھا کہ ایک بات بتائو تم بہن کو اپنے پیچھے کیوں چلواتے ہو ۔ اسے تمہارے آگے اور تمہاری آنکھوں کے سامنے ہونا چاہئے تا کہ تمہارا دھیان رہے ۔ اس پر اس لڑکے کاجواب سن کر وہ حیران رہ گیا۔ کہنے لگا کہ جناب اس کو پتا ہے سخت گرمی ہے سورج آگ برس رہا ہے ۔ جب میں ٹوکرا سر پر رکھ کر چلتا ہوں تو اسکا سایہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ بن ماں باپ کہ میری یہ چھوٹی بہن میرے سائے میں رہے اور اسے دھوپ نہ لگے ۔ سبحان اللہ! ان کے آنسو نکل آئے کہ ان پڑھ صحرائی بچے کے ان جملوں میں انسانیت ، عبادت کے ڈھنگ ، بہنوں کے حقوق اور چھوٹوں پر شفقت ، یتیم کی رکھوالی اور احساسِ ذمہ داری گویا انسانیت سب کچھ سمجھا دیا۔

یہ ہوتا ہے پریکٹیکل اور یہ ہوتا ہے عمل اور ایسے لوگوں کو صحرا ہی پیدا کرسکتا ہے کیونکہ صحرائوں نے نبی پیدا کیے تو اسی لئے اشفاق مرحوم نبیؐ کی سنت میں صحرا کے عبادت کے مزے لینا چاہتے تھے تو درس انسانیت کا انمول تحفہ انہیں ملا اور ان کے ذریعے ہمیں ہم سب کو ہی ملا ۔ سبحان اللہ ! اب آ ج کے دور میں باپ بھائیوں بیٹوں اور پھر شوہروں کی تک حیا دیکھئے احساسِ ذمہ داری دیکھئے اور پرکھیے کیا کچھ ہو رہا ہے؟ کیسے بے یارو مددگاربنایا جارہا ہے والدین کو کیسے کلیوں کی طرح مسلا اورکچلا جا رہا ہے ؟ کیسے گھروں میں بازاروں میں دکانوں میں ، اسکولوں کالجوں اور تفریحی گاہوں میں کیسے ان کا برتائو ہے؟ حقوق کیسے غصب کئے جا رہے ہیں ؟ وراثت کیسے ماری جا رہی ہے ؟ کیوں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جار ہا ہے کیوں ان پر گرفت نہیں ؟ کیا ایمان سے دل بالکل ہی خالی ہو گئے ہیں ؟ نظروں سے بدنوں تک ہر جگہ برائی کا راج ہے ۔ لباس کے تقاضے پورے کرنا تو دور کی بات ۔ بے لباس کی طرف چڑھائی ہے وہ بھی فخریا گویا کوئی بڑائی ہے فن کاری اور کامیابی ہے عورتیں تو عورتیں مرد بھی شامل ہیں ۔ مغربی تہذیب بھی جس پر شرمائے ۔ جب ظاہر ایسا بھیانک تو باطن اف میرے اللہ نا قابل بیان تصور۔

اللہ بچائے ہمیں شیطان کی چال سے

مردوں کو پھانستا ہے یہ عورت کے جال سے

تو جناب مرد خود کیا ہے ؟ وہ تو قوام ہے محافظ ، رکھوالا اور پورے کنبے کا راعی جب وہ ہی بے حس ہو جائے اور حیا سے عاری ہوجائے اپنے اہل خانہ بہن بیٹیوں ، بیویوں کسی کو بھی مہذب نہ رکھ پائے تہذیب کو مسلسل خاموشی تو کیا ڈنکے کی چوٹ پر بگاڑے تو کیسے نہ ہو شرمناک واقعات اور اللہ کا عذاب؟ وہ رب توکریم ہے ڈھیل دیئے جا رہا ہے ۔ دراصل نفسانی خواہشات دین سے دوری سستی کالی اور میڈیا کی اندھی تقلید نے معاشرے کے اقدار کے بگاڑ کو مسلسل بڑھاوا دیا ہے۔

                                                 زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے

                                                  بج رہا ہے اور بے آواز ہے

                                                     اب کہنا پڑ رہا ہے کہ

                                         بے حیائی بے ایمانی کا ساز بھی کیا ساز ہے

                                                گرج رہا ہے اور بے آواز ہے

حکومتی اداروں کی غیر سنجیدگی ، نوجوانوں کی تعلیم و تربیت سے دوری اور مستقبل کے ان معماروں کی مستقبل کیلئے حد درجہ کی مایوسی اوپر سے ٹیکنالوجی کی خرافات بے حیائیاں سب نے ملکر ہمارے معاشرے کا ہمارے مذہب کا ، اسلامی اقدار کا شیرازہ بکھرا کر حیا کا جنازہ نکال دیا ہے۔ برائیوں کو بے حیائی بے حجابی کو دیکھتے ہوئے بھی متحرک نہ ہونا ، ذمہ داریاں نہ قبول کرنا اور یوں ہی صرف لفاظی کرکے خود کو بچانا اور دوسروں کو الزام دینا بھی بہت بڑا دھوکا ہے۔

بے حیائی ہے انسانوں کا یہ بگاڑ یہ زبوں حالی ، یہ ہر سطح کا کرپشن ہم سب کیلئے لمحہ فکر ہی نہیں وقت عمل ہے ۔ انسان اپنی فضیلت کو سمجھے اور اپنے مقام مرتبے یعنی خلیفۃ الارض کا حق سچی نیت سے نبھائے اور عملی زندگی میں ہر لمحہ نیک کام کرے صبر شکر کے ساتھ ہر لمحے کی قدر کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو حق حلال کمانے اور بے حیائی سے بچے رہنے میں صَرف کرتا رہے اور اپنے مقصدِ حیات کو یاد رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے سے نہ صرف بے حیائی کو روکا جائے بلکہ اسلامی تہذیبی ارتقائی منازل طے کرنے میں نہ صرف خودرول ادا کریں بلکہ اپنی نسلوں کو یہی ورثہ دیں تاکہ اسلام کا اور اپنے مسلمان ہونے کا حق اداکریں اور یوں اپنے اعمال سے کردار سے دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی سرخرو رہیں۔ انشاء اللہ