اسلامی معاشرہ قرآن و سنت پر استوار ہے جس کے تحت مرد کو نگاہ نیچی رکھنے اور عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والا ملک ہے مگر یہاں بے حیائی کے کلچر کو مختلف طریقوں سے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ عورت کی آزادی کے نام پر عورت مارچ اور اس میں مردوں سے انتقام لینے کے نعرے۔ یہ سب کچھ کسی سے ڈھکا چھپا ہرگز نہیں۔
امہات المومنین کے خلاف پوسٹرز اویزاں کرنا اور سرے عام گستاخیاں ہم ہر سال مارچ میں دیکھتے ہیں۔ یہ وہ این جی اورز ہیں جن کا مقصد حقوق نسواں کے نام پر یورپی ممالک سے چندے بٹونا اور پاکستان میں اسلامی اقدار ختم کرنا اور بے حیائی کو میٹھے انداز میں پروان چڑھانا ہے۔ نوجوان لڑکیاں بجائے جسم ڈھانپنے کے، جسم کی نمائش کو ترجیح دیتی ہیں۔ کیوں کے انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے اسے اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ فلموں ڈراموں میں یہی کلچر نوجوان نسل کو سکھایا جا رہا ہے۔ کہیں سسر بہو کے ناجائز تعلقات اور کہیں بہنوئی سالی کے معاشقے دکھائے جا رہے ہیں۔
کل ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں ایک ڈرامے میں ایک بوڑھی عورت ایک جوان لڑکی کو کہتی سنائی دی کہ تم نے بہت سارے (لڑکے) پھنسائے ہوئے ہیں کسی ایک سے ٹانکا فٹ کر لو ہم ادھر بیاہ دیں گے۔ اس سارے تناظر میں پیمرا ابدی نیند سو رہا ہے ورنہ حکومت کے خلاف بات آنے پر فوراً پروگرام پر بین لگ جاتا ہے لیکن ان فحش ڈائیلاگز والے ڈراموں پر کسی قسم کا بین نہیں لگایا گیا۔ پاکستانی ڈراموں میں جسے غریب و لاچار دکھانا ہو اسے بڑی سی چادر اور اسکارف میں ملبوس دکھایا جاتا ہے جبکہ پڑھے لکھے اور باشعور طبقہ کی عکاسی کے لئے جینز اور شرٹ میں ملبوس خواتین اسکرین پر نظر آتی ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اسلام مظلوم و لاچار ہے؟ کیا بے حیا کلچر صحت مند معاشرے کی علامت ہے؟ کیا خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لئے ادھ ننگا دکھانا ضروری ہے؟ انہی عوامل کی وجہ سے پاکستان میں کالجوں یونیورسٹیوں میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔
بعدازاں اسی محبت کی پیداوار ایدھی سینٹر میں بغیر باپ کی پہچان کے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے یا یہ لوگ اس نومولود کو کسی کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں۔ عائشہ اکرم کیس اور اس قسم کے لاتعداد کیس محض بے حیائی اور جنسی بے راہ روی کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔ بد نگاہی ہر گناہ کا پہلا درجہ ہے۔ فلموں ڈراموں اور سماج میں چلتی پھرتی زندہ ادھ ننگی لاشوں کو دیکھ کر نوجوان طبقے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ کسی طور پر جنسی تسکین کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لاہور میں ماں بیٹی کے ساتھ رکشہ ڈرائیور اور اس کے مبینہ ساتھی نے زیادتی کی۔ بس اڈے سے ایل ڈی اے کے ویرانے میں لےجایا گیا اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یوم آزدی پر کچھ نوجوان لڑکے رکشہ پر سوار خواتین کو آوازیں کس رہے تھے۔ ایک نے تو حد ہی کر دی کہ موٹر سائیکل سے آگے ہو کر لڑکی کا بوسہ لیا اور پھر موٹر سائیکل پر براجمان ہوگیا۔ یہ افعال دیکھ کر دل ایک بار ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا یہی پاکستان تھا جو قائد اعظم محمد علی جناح نے اتنی مصائب و تکالیف اور ہزاروں قربانیوں کے بعد حاصل کیا؟ اسی پاکستان میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں۔ اگر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو، خواتین پردہ کریں اور مرد اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔
کوڑے پڑنے اور سنگسار کرنے کی سزائیں موجود ہوں تو کون اس طرح کا قبیع فعل سر انجام دینے کی جرات کرے گا؟ افسوس صد افسوس یہ جنسی درندے اگر پکڑے جائیں، یا تو جنونی کہہ کر رہا کر دیے جاتے ہیں یا ان کے وکلاء ان کو پاگل ڈکلئیر کر کے چھڑوا لیتے ہیں۔ مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ البتہ بہت سے ویب پیجز اور چینلز والے محض اپنی ریٹنگ لائکس کمنٹس اور فالوورز کے چکر میں انٹرویو کر کر کے مظلوم کو اور بدنام کر دیتے ہیں تا کہ وہ کبھی نارمل زندگی کی طرف نہ لوٹے اور خودکشی کو ترجیح دے۔ بے حیائی کی روک تھا فرد واحد کا کام نہیں اسے پورے معاشرے کو مل کر روکنا ہوگا۔
بے حیاء بے پردہ خواتین کا باپردہ خواتین بائیکاٹ کریں اور ان کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ اسلامی و اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پردہ کیوں ضروری ہے۔ یونیورسٹی لیول پر داخلے کے لئے نکاح نامہ لازمی قرار دیا جائے تا کہ بجائے بوائے فرینڈ کے خاوند اپنی خواتین کے ساتھ پڑھیں یا ان کی پڑھائی سے متعلقہ ضروریات پوری کریں۔ اگر اک نظرہمسایہ ملک افغانستان کو دیکھیں تو اس میں امریکی انخلاء کے بعد اب حالات معلوم پر آ رہے ہیں۔ بہت سے پارلر اور سلون والی خواتین و حضرات نے فحش تصاویر دیواروں پر اویزاں کر رکھی تھیں۔
اسلامی حکومت آنے کے بعد وہ سب ان پر سفید رنگ کر کے مٹاتے نظر آ رہے ہیں۔ باپردہ خواتین نے حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار کر کہ اس سے مردوں سے الگ تعلیمی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسی قسم کا کوئی جنسی ہراسگی کا واقع رونما نہیں ہوا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم آزادی کو اتنے سال گزرنے کے باوجود ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ اور اسی اسلامی ملک میں حقوق نسواں کے نام پر مغربی ٹکڑوں پر پلنے والی این جی اوز کو کھلی چھٹی فراہم کی گئی ہے کہ وہ جیسے چاہیں اس ملک کی عوام کے اخلاقی اقدار کا حلیہ بگاڑیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بے حیائی جیسے معاشرتی ناسور کو ختم کرنے کے لئے اعلی سطح پر اقدامات کرے۔ جب حکومتی مشینری ان افعال سے پاک ہوگی اور بروقت انصاف کو یقینی بنایا جائے گا تو عوام بھی اس پر عمل کرے گی۔