منہ زور مہنگائ

 

نکاح سے چند ساعت قبل قاضی نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو اس نکاح پر اعتراض ہے تو ابھی بتا دو۔آخری کرسی پر تشریف رکھے ہوئے ایک خوب صورت دو شیزہ اپنے نوزائیدہ بچے کو گود میں لئے اٹھی اور اسٹیج کے نزدیک آ کر کھڑی ہو گئی۔یہ منظر دیکھتے ہی دلہن نے دلہا کو زدو کوب کرنا شروع کر دیا،دلہن کا والد اپنی بندوق لینے گھر کی طرف دوڑا۔دلہن کی ماں اسٹیج پر ہی بے ہوش ہو گئی،سالیوں نے بھی دلہا میاں کو لعن طعن کرنا شروع کر دی،اور سالے آستینیں چڑھانے لگے۔اتنے میں قاضی نے لڑکی سے پوچھا کہ.

’’بتائو بیٹی آپ کا کیا مسئلہ ہے‘‘لڑکی بولی قاضی صاحب پیچھے آواز نہیں آرہی تھی اس لئے میں یہ پوچھنے کے لئے آگے آئی ہوں کہ آپ کیا فرما رہے تھے؟

لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں،ہم نہ ہی مسئلہ سے قبل سوچتے ہیں اور نہ ہی مسئلہ پیدا ہونے کے بعداس کا حل تلاش کرنے کے لئے سرکرداں ہوتے ہیں۔بس لوگوں کے کہنے پر کہ کتا تمہارا کان کاٹ کر لے گیا ہے،ایک دم کتے کے پیچھے بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں،اپنا کان نہیں دیکھتے کہ جسم کے ساتھ ہے بھی کہ نہیں۔کسی بھی ایرے غیرے نے ایک نعرہ دیا،بلا سوچے سمجھے اس کے پیچھے زندہ باد ،زندہ باد کی صدائیں بلند کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس شخص کا ماضی کیا تھا؟اس سے قبل کتنی بار ملکی سیاست و معیشت کے ساتھ کھیل چکا ہے۔بس آوے ای آوے گا کے نعرے بلند کر دیتے ہیں۔اسی وجہ سے یہ لوگ قوم میں شعور بیدار نہیں ہونے دیتے۔کہ اگر اس سوئی ہوئی قوم کا شعور جاگ گیا تو ہمارے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کون کھڑا ہوگا۔انہیں قوم اور ملک و ملت سے کوئی سروکار نہیں بس اپنی سرکار سے ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی پچھلی سات دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے تو اس کا حل کیا ہے؟

میری نظر میں اس کا ایک حل ہے اور وہ یہ ہے کہ امیدوں کے چراغوں کو گل کردیا جائے۔یعنی ایسے افراد سے اپنی امیدیں باندھ کر اپنی خواہشات کی تذلیل نہ کروائیں۔کیونکہ ازل سے پیدا شدہ کجی ایک روز میں درست نہیں ہو سکتی۔یہ حل میں نے چند روز قبل انڈین فلمسٹار سنجھے دت کے ایک انٹرویو سے سیکھا۔اس کا کہنا یہ تھا کہ جیل نے مجھے ایک سبق سکھایا کہ کسی پر کبھی کوئی امید نہ رکھو۔اس کا فلسفہ بہت پر امید تھا اور وہ یہ تھا کہ کسی اور سے امید لگا بیٹھنا کہ وہ میرے لئے یہ کر دے گا،وہ کردے گا،سب امیدیں انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں۔اس لئے کہ امید لگائے بیٹھنے والا انسان دوسروں پر خود کو منحصر کر لیتا ہے۔اور جو کسی اور پر انحصار کرنا شروع دیتے ہیں وہ تازیست اپنے اندر خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔وہ خود کو کبھی بھی پہچان نہیں پاتے۔اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست سے ہٹ کر بھی آپ سب نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ گھر میں جو کوئی فردِ خانہ اپنی ذمہ داریوں کو پہچان کر چلے،سمجھو اس کی شامت آگئی ہے۔ہر کوئی اسی پر تول و قناعت کر کے بیٹھ جاتا ہے۔اگر گھر میں موجود کسی کاہل و آلکس سے پوچھیں کہ وہ کوئی کام کیوں نہیں کرتا تو اس کا سیدھا جواب ہوتا ہے کہ بڑا بھائی ملک سے باہر گیا ہوا ہے۔گویا بڑا بھائی بھی انہیں امید دلانے میں شامل ہوتا ہے۔یہی برادر اکبر اگر شروع دن سے ہی اپنے تعاون سے انکار کر دے تو دیگر اہل خانہ کی امیدیں کبھی جڑ نہیں پکڑیں گی۔لہذا نہ امید لگائیں اور نہ ہی کسی کو امید دلائیں۔یہ بہت سے مسائل و معاملات کا حل بھی ہے اور قوم کے لئے آگے بڑھنے کے لئے مہمیز بھی ہے۔اب آتے ہیں عوامی امیدوں کی طرف جو ہم ہر نئی حکومت سے لگا بیٹھتے ہیں۔

گذشتہ تین برسوں میں تسلسل سے قیمتوں میں گرانی اور اشیائے خورونوش کی مہنگائی کا صدر مملکت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے نوٹس تو لیا ہے۔اس آرڈینیننس کا نام ہے پاکستان فوڈ سیکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس۔اس حکم نامہ کا مقصد یہ ہے کہ بلاجواز مہنگائی،ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ و دیگر اسی طرح کی سماجی برائیوں پر چھ ماہ کی قید و جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا ئیں گی۔دیر آید درست آید،لیکن ہماری قوم کا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ صدر نے کوئی آرڈیننس جاری کردیا ،وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں نوٹس لے لیے یا پھر چیف جسٹس نے سو موٹو نوٹس لے لیا۔مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔

حلقہ ارباب اقتدار حکم نامہ تو جاری کر دیتے ہیں لیکن عملی اطلاق کے فقدان کی وجہ سے ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں آ جاتے ہیںاور مسئلہ یوں کا توں ہی رہتا ہے اور اسی توں اور یوں کے درمیان عوام میں تو تو میں میں ہو جاتی ہے۔آرڈیننس کے جاری ہوتے ہی تحصیل سے ڈویژن کی سطح تک افسر شاہی مکمل حرکت میں آچکی ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا کی حد تک۔یعنی مارکیٹ کا چکر لگایا،چند تصویر بنا لیں،اپلوڈ کیں اور اللہ اللہ خیر سلا۔گویا سابق حکومتوں اور حالیہ حکومت کے رویوں اور عملی اطلاق میں کوئی فرق نہیں۔تبدیلی تو تب ہو جب گذشتہ سے کچھ ہٹ کر اور بہتر ہو۔اگر حالیہ حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح مکھی پر مکھی ہی مارنا ہے تو پھر بلی بی ہم لنڈورے ہی بھلے۔کیونکہ جب تک ہم عوام حکومت،افسر شاہی اور اداروں پر امیدیں باندھے رکھیں گے تب تک نظام بدلنے والا نہیں ۔لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ مہنگائی قابو میں آجائے تو امید قائم کرنے کی بجائے عملی اطلاق کا سبب پیدا کرنا ہوگا۔اور اس کے لئے سال نہیں سالوں کی تپسیا چاہئے۔کیونکہ.

                                                          وقت کرتا ہے پرورش برسوں

                                                             حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔