ہاتھ میری بیوی کی امانت

میں سچ کی تلاش اور حق کی تلاش میں رہتی ہوں کوئی ایسی بات کوئی ایسا واقعہ ، کوئی ایسی کہانی، قصہ جو سبق دے جائے ، سدھار جائے ، اس سے پہلے کہ ہم دنیا سدھار جائیں جس کا ہمیں علم نہیں مگر یقین ہے کہ آج نہیں تو کل اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔ حیا کا ہفتہ منایا جا رہا تھا ہر جگہ حجاب اور حیا کے پوسٹر ، مضامین پروگرامز اور دروس الحمد للہ ہمیں آگاہی فراہم کر رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا بھی درست استعمال کمال رکھتا ہے ۔ نہ چاہتے ہوئے میں نے سونے سے قبل موبائل پرواٹس ایپ پر نظر ڈالی کہ کوئی نئی خبر بقول میری بہن کہ” نو نیوز از آ گوڈ نیوز” یعنی کسی خبر کا نہ ملنا بھی اچھی خبر ہی ہوتی ہے لیکن ایک اچانک جملے پر میری نگاہ جم گئی کہ “یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہیں “میں نے سوچا یہ کیا لکھا ہے ڈھونڈو کسی نے کیا بھیجا ہے تو میری ایک دوست نے آسٹریلیا سے ایک بڑھتا پیغام بھیجا جسکا عنوان تھا “عورت کی عزت”دراصل وہ اشفاق احمد مرحوم کا ایک ذاتی واقعہ تھا جو ہمیشہ سبق آمواز اور آگہی فراہم کرنے والے ہوتے ہیں۔

اسی لئے صدقہ جاریہ بن کر ہم تک خود چلے آتے ہیں اور ہم بھی انہیں سمجھ کر عمل کی توفیق مانگتے ہوئے آگے بڑھاتے ہیں کہ یہ بھی کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ضرور اپنا اثر دکھائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ تو اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ انگلینڈ کے ایک پارک میں بیٹھے تھے کہ ایک تبلیغی جماعت کے کچھ نوجوان چہل قدمی کرتے پارک میں آئے، اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا تو انہوں نے وہیں جماعت شروع کردی ۔ ان کو دیکھ کر نوجوان لڑکیوں کا گروپ وہاں سے گزرا ان کے پاس پہنچا اور نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا آئو دیکھیں ان کے درمیان کیا باتیں ہوتی ہیں؟ لہٰذا وہاں پہنچ کر وہ بھی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔ نماز ختم ہوتے ہی ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر جماعت کرنے والے نوجوان سے پوچھا تمہیں انگلش آتی ہے ؟ نوجوان نے کہا جی آتی ہے۔ تو لڑکی نے سوال کیا کہ تم نے ابھی کیا عمل کیا ؟ نوجوان نے بتایا کہ ہم اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے تو لڑکی نے پوچھا آج تو اتوار نہیں ہے تو آج کیوں کی ؟ نوجوان نے اسے بتایا کہ یہ ہم ہر روز دن میں پانچ بار عمل کرتے ہیں تو لڑکی نے کہا کہ باقی کام پھر کیسے کر لیتے ہو؟ اس نوجوان نے مکمل طور سے پوری بات سمجھائی ۔ بات ختم ہونے پر لڑکی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں آپ کو چھو نہیں سکتا ۔”یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے ” اور یہ صرف اسے ہی چھو سکتا ہے ۔ یہ سن کر وہ لڑکی زمین پر لیٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روتے روتے بولی اے کاش! یورپ کا ہر نوجوان بھی اسی طرح ہوتا تو آج ہم بھی کتنے خوش ہوتے ۔ پھر بولی کہ واہ کتنی ہی خوش نصیب ہے وہ لڑکی جس کے تم شوہر ہو یہ کہہ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی ۔ اشفاق مرحوم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ “بانو! آج یہ نوجوان اپنے عمل سے وہ تبلیغ کر گیا جو کئی کتابیں لکھنے سے بھی نہیں ہوتی”بے شک عزت اور سربلندی اسلام ہی میں ہے ۔ یا اللہ ہمیں اپنی خاص رحمت سے دین اسلام پر صحیح طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور دین اسلام پر استقامت عطا فرما ۔ آمین۔

اکثر ہم بزرگوں سے اس قسم کے واقعات سنتے ہیں کافی متاثر بھی ہوتے ہیں پورا قرآن قصوں اور وواقعات کے ذریعے ہی تو ہمیں آگاہی فراہم کرتا ہے لیکن ہم ہیں کہ سدھر کے ہی نہیں دیتے ۔ آج میڈیا کو الزام دے کر ہم بری ہو جاتے ہیں میڈیا چلانے والے ہزاروں مرد و خواتین دیکھنے والے ہزاروں لاکھوں افراد سب کچھ جانتے ہوئے کیا کچھ کر رہے ہیں ؟ قیامت کے دن کو ہمارے اعضاء بھی ہماری گواہی دینگے کیا ہمیں نہیں معلوم؟ ہمارے روئیے دیکھئے ہمارے اعمال دیکھئے ، آئے دن ہونے والے ہولناک واقعات دیکھئے ۔ گھروں میں کیا حالت ہے۔

کس طرح مرد حضرات بھی مردانگی دکھاتے ہیں مگر وہ دراصل کسی حد تک حیوانگی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ بیشک شیطان ہمیں آگے پیچھے دائیں بائیں ہر جانب سے گھیرتا ہے دوسری طرف ہمارا ایمان ہمارا نفس ہمیں ہوشیار خبردار کرتا رہتا ہے۔ کہاں تو آپکی نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے کہ نظریں شیطان کے تیر ہیں بے شک وہ زنا کرتی ہیں تو ساتھ ہی زبان ، ہاتھ پائوں کان سب ہی اپنے اپنے لیول پر زنا کرتے ہیں بلکہ ہم خود انہیں ملوث کرتے ہیں اور الزا م دیتے ہیں شیطان کو یہ بھی ایک الگ دھوکا ہے جو اولاد کو صحیح رخ صحیح سمت چلا کر برائی سے بچا کر عورت کی عزت کی محافظت کر واسکتے ہیں۔ انہیں شروع ہی سے اللہ کی خوشنودی احکامات ، اچھے نیک اعمال اور باوقار رہنے کی تربیت دینا ۔ مہذب طریقے سے ملنا جلنا، کیسے بیٹھنا؟ کیسے سونا؟کیسے حیاکی پاسداری کرنا سکھانا چاہئے ؟لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کو بھی بے انتہا مہذب با اخلاق اور حیا کا درس عملی طور پر دینا چاہئے انہیں جب گھر میں ان حدود و قیود کا پابند شعوری طور پر کیا جا ئے گا۔

کاہلی سے نفرت دلوائی جائے۔ ان کی گتھی میں یہ بات ڈال دی جائے گی کہ کیا چیز جا ئز اور کیا ناجائز ہے اللہ کی نظر میں اور ہمیں صرف اللہ ہی کی نظر میں مخلص رہنا ہے تو ہم خود سدھرتے جائیں گے تو یقین جانئے یہ معاشرہ بھی پاکیزہ تر ہوتا چلا جائے گا ۔ سگے رشتوں میں بھی ایک ادب لحاظ رہتا ہے ۔ ایک دوسرے کے کمروں میں جانے کیلئے اوقات کا ، دروازہ بجا کر آگاہ کر کے جانے کا حکم جب ہمارا دین دیتا ہے تو ہم اتنے بے باک کیسے؟ کہ ان احکامات کو پسِ پشت ڈال کر جو جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں ۔ نہ شرم نہ لحاظ نہ ادب نہ احترام تو بندہ پھر یہ کیسا مسلمان ؟ ہماری سواریاں ، ہمارے بیٹھنے کے انداز اوپر سے ہمارا لباس ، محرم نا محرم کا تک کوئی لحا ظ نہیں اسکو برائی بھی تصور نہیں کیا جا رہا ہو تو بتائیں عملی تبلیغ کی باری کیسے آئے گی ؟ اور ہمارے عمل مکمل کیسے ہونگے ؟ جب ہم ہی نہ سدھرے ، کیا ہمیں حکمِ الٰہی کی پاسداری نہیں ؟ کیا ہمیں آخرت کی جواب دہی کا یقین نہیں ؟ تو پھر یہ کیسا طرز عمل ہے ۔ غیروں سے ہاتھ ملانا ، ہاتھ چوموانا ، گلے لگانا اور نہ جانے کیا کیا۔

منہ بولے بیٹے کو تک چھونے کی مطلب جب وہ بالغ ہو اجازت نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم جانتے بوجھتے بھی ایسا کر رہے ہیں جو سراسر غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں سب کو صحیح عمل کرنیکی توفیق دے ہمیں ہدایت دے سیدھے راستے کی، برائی سے بچنے ، دین کو سیکھنے ، سمجھنے ، عمل کرنے اور آگے بڑھانے کی صحیح توفیق دے اور ہمارے بھائی بندوں ، شوہروں ، بیٹوں کو سب کو اللہ صحیح معنوں میں قوام بنائے اور اپنے اعمال کا امین بنائیں کہ ان کی اولاد اور ان کی رعیت کے تمام لوگ ان سے اور ان کے عملی نمونے سے اپنی زندگیاں سدھاریں ۔ یوں تو ہرفرد اپنے عمل کا خود ہی ذمہ دار ہے اور ہر ایک پر اسلامی احکامات فرض ہیں ہر ایک سے پوچھ ہے مگر کیونکہ مرد کو ایک درجہ زیادہ دیا گیا ہے تو اسکا امین ہونا عورت کیلئے ماں بہن کیلئے بہت ہی زیادہ مئوثر ہوگا ۔ حلال کمائی، حلال کام کی برکت ہی گھر کو چار چاند لگائے گی.

واقعی خوش قسمتی پر شکر گزار ہوناچاہئے ۔ ان تمام مستورات کو جنکے مرد حضرات صحیح معنوں میں مومن صالح مرد کا بہترین نمونہ رہتے ہیں اور اپنی فیملی کو بھی دین پر کاربند رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ عورتوں کے ہاتھوں کی ان محنتوں عزتوں کے محافظ بھی ہوتے ہیں ، قدر دان بھی جن کے دم سے ہم ناچیز عورتوں کے گھرانے سکھ چین پاتے اور آخرت کیلئے سرگرم نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو خاص ہدایت دے اور انہیں دین کو نافذ کرنے والے بنادے اور ہم عورتوں کو بھی ایسا اسلامی شعور اور شعوری حیا دے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اسوئہ محمدیؐ پر کاربند کرواسکیں اور اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکیں ۔ ہمیں یہ کام آج سے بلکہ ابھی سے کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گذشتہ تمام گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں دین کی تجدید کے ساتھ ساتھ اس پر کاربند رہنا نصیب فرمائے ۔ مرتے دم تک ہم اس دین کی سربلندی کیلئے احکامِ الٰہی کے پابند ہوں ۔ آمین یا رب العالمین.