انسدادِموروثی سیاست

انتخابات میں حصہ لینے والوں اور خصوصی طور پر کامیاب ہونے والوں پر یہ شرط لازمی لاگو ہونی چاہئے کہ وہ کسی بھی قسم کے کاروبار نہیں کرینگے یا اسوقت تک کسی کاروبار کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک وہ بطور عوامی نمائدے ایوان میں موجود رہینگے اور اگر کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمی (اپنے کسی تعلق دارکو آسانی فراہم کرنا ) میں ملوث پائے گئے تو بھاری جرمانے کیساتھ انکی رکنیت بھی منسوخ ہونی چاہیے اور اسکا اطلاق بھرپور طریقے سے ہونا چاہیے اور لازمی قرار پانا چاہئے کہ اس امر کا چرچا ہر ایوان بالا و زیریں کے ہر چھوٹے بڑے اجلاس سے قبل تلاوت کلام پاک کے بعد لازمی قرار دیا جانا چاہئے۔

ہمارے ملک میں انتخابات کی تیاری پورے سال چلتی رہتی ہے کوئی کسی کی صحتیابی کیلئے دعا کرتا ہے اور کوئی کسی کی اس فانی دنیا سے جلد رخصت کیلئے اس کے حق میں نا صحیح پر اپنی دانست میں بد دعا دیتا ہے اس طرح سے کہیں دعاءوں اور کہیں بد دعاؤں کا اہتمام ہوتا رہتا ہے اور کہیں ان دعاؤ ں اور بدعاؤں کیلئے عملی کام بھی سرانجام دئیے جاتے رہتے ہیں، دعاؤں کیساتھ منتیں اور چڑھاوے مانے جاتے ہیں جبکہ بدعاؤں کی کامیابی کیلئے کبھی ذاتی دشمنی کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور تو کبھی ڈکیتی پر مزاحمت کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔

دنیا میں مختلف پیشوں سے وابستہ لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں سیاست کوباقاعدہ ایک پیشے کی حیثیت حاصل ہے اور اس سے وابستہ ہوکر مختلف کاروبار کئے جاتے ہیں ، آپ کسی بھی نوکری کے حصول کی طرح کسی طرح سے کسی ایسی جماعت کا پتہ لگا لیں جو آنے والے انتخابات میں منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اور پھر اسکا حصہ بن جائیں ۔ یہ بھی جان لیں کہ سیاست میں آنا اور اسے بطور پیشہ بنانا یہ ملک خداداد پاکستان میں ہی ممکن ہے یہ ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح سے خاندانی کاروبار ہوتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اورخوب پھلتا پھولتا رہتا ہے بلکل اسی طرح سے موروثی سیاست بطور کاروبار پاکستان میں نسل در نسل چلتی رہتی ہے ۔ فرق اتنا ہوتا ہے کہ عملی کاروبار کی کوئی حد نہیں ہوتی شہر شہر ملکوں ملکوں گھومتا رہتا ہے اور خوب پھلتا پھولتا رہتاہے جبکہ سیاست میں علاقے پر چھاجانے کا تصور عملی سمجھا جاتا ہے۔

موروثی سیاست کی اعلی ترین مثال ہمارے ملک کی دو بڑی جماعتوں میں خاص طور پر نا صرف نمایاں ہیں بلکہ وہ بے دریغ اس بات کا چرچا کرتے بھی دیکھائی دیتے ہیں ۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم صفدر صاحبہ فرما رہی تھیں کہ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ ہمارے خاندان کے اور ہماری جماعت کے سربراہ نواز شریف صاحب ہیں ۔ حقیقت میں تو یہ انتہائی شرمندگی کا مقام ہونا چاہئے تھا کہ بھلا یہ کیا جمہوریت ہوئی کہ پوری سیاسی جماعت میں کوئی سیاسی بصیرت رکھنے والا نہیں کہ چند مخصوص افراد وہ بھی خاندان والے ہی کسی ذمہ داری کے اہل قرار پاتے ہیں ۔ موروثی سیاست کی تاریخ کا تانا بانا بادشاہی نظام سے جا ملتا ہے جہاں بادشاہ سلامت کی بات حرف آخر سمجھی جاتی ہے اور تخت پر نسل در نسل قبضہ جمع رہتا ہے ۔ نا کوئی رائے عامہ ہوتی ہے، ناہی کسی قسم کی اختلاف رائے کو جگہ دستیاب ہوتی ہے اور ناہی کوئی دینی احکامات کی پاسداری ۔ تاریخ میں ایک بہت بڑا سانحہ اس موروثی سیاست کی مرہون منت رقم ہوا ہے جہاں اقدار کی خاطر عظیم ہستیوں کی زندگیاں چھیننے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

اب بھلا محلوں میں رہنے والوں کو دال روٹی سے کیا لینا دینا اور ان کے داموں سے تو انکا بطور کاروبار تعلق تو ہوسکتا ہے لیکن خرید و فروخت سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہوتا، انہیں دودھ کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا یا تو سماجی ابلاغ یا دیگر ابلاغ یا پھر کسی ملازم سے پتہ چلتا ہے اور اسی طرح سے دیگر اشیاء خرد و نوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کے بارے میں معلومات کا علم اسی طرح سے ہوتا ہے بصورت دیگر انکا بلواسطہ تو کوئی واسطہ پڑتا ہی نہیں ۔ سب کچھ سرکاری خرچے سے سرکاری لوگوں کی مدد سے میسر ہوجاتا ہے ۔ اگر ہماری بات سے اختلاف کرنے والے یہ کہنے کیلئے تیار ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سامان خود لاتے ہیں تو اب وقت اور حالات تبدیل ہوچکے ہیں اب کاروبار کو بغیر منظر عام پر لائے بھی وسعت دی جاسکتی ہے مختلف ادارے اس کام کیلئے بر سر عمل موجود ہیں ۔ جن میں مقامی سطح پر دراز اور دیگر کیساتھ بین الاقوامی سطح پر ایمزون ہیں۔

بہت ممکن ہو کہ قارئین کو اس بات سے اختلا ف کریں کہ بھلا موروثی سیاست کا مہنگائی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے، جیسا کہ درجہ بالا سطور میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ موروثی سیاست کس طرح سے ملکی معیشت پر قابض ہونے کی اہلیت رکھتی ۔ موروثی سیاست میں پورے کا پورا خاندان ملوث ہوتے رہے ہیں ، عمومی مثال کے طور پر پچھلے دور ِ حکومت کے اعلی سطح کے ایک بین الاقوامی دورے میں شامل وفد میں اکثریت صاحب اقتدار کے اہلِ و عیال کی تھی اور تقریباً کاروباری معاہدے ان ہی سے طے پائے ۔ اب یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ جب کاروبار کرنے والے لوگ خود ہی اشیاء کی قیمت فروخت طے کرینگے تو بھلا ادارے کس طرح سے اپنی اہمیت کو اجاگر کر سکیں گے۔

ہمارے ملک میں اداروں کی نا اہلی کے پیچھے بھی دیکھا جائے تو اسی موروثی سیاست کا ہاتھ دیکھائی دے گا، واضح ہے کہ جب ارباب اختیار بدعنوانی اور بد اخلاقی کے مرتکب ہونگے تو بھلا انکے ماتحت ادارے کس طرح سے انکے خلاف کام کرینگے (بد اخلاقی ابھی تازہ ایک ویڈیو کے حوالے سے استعمال کیا ہے )۔ بد عنوانی ہی حقیت میں ملک میں مہنگائی کی اصل وجہ ہے ۔ ٹیکس چوری کرنے والے اس چوری کیلئے ادارے کے افراد کو اس سے کہیں زیادہ رشوت دینے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن ملک کے خزانے میں حلال طریقے سے ٹیکس جمع کرانے کیلئے تیار نہیں ہوتے ۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ منظر عام پر مہنگائی کا رونے والوں کی صحت پر کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا کے کون سی شے کتنے کی مل رہی ہے ۔ یہ وہی مہنگائی کا راگ آلاپنے والے لوگ ہیں جن کے اپنے دورِ حکومت میں بھی اسی طرح سے مہنگائی کا رونا گانا لگا رہا ہے اور یہ اپنے اقتدار کے مزے میں مگن اقتدار کے مزوں کے ساتھ ساتھ عوام کی خون پسینے کی کمائی بھی لوٹتے رہے ہیں۔

حکومت اگر ہر اشیاء خوردونوش پر سرکاری امداد (سبسڈی)دے تو مصنوعی طور پر انسداد مہنگائی ممکن ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی جان لیجئے کہ یہ سب عارضی ہوگا اور اس کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ بہترین عمل یہ ہوسکتا ہے کہ اداروں میں استحکام لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ، قابلیت اور اہلیت کو ہر قسم کے طے شدہ (کوٹہ) نظام سے ہٹ کر ملک کے مفاد کیلئے تقرریاں کی جائیں، چھوٹی سے چھوٹی بدعنوانی کی سزا اعلانیہ طور پر نافذ کی جائیں، بہترین اور مخلص افراد کی تلاش کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان افراد پر مشتمل ہو جو ملک و قوم کیلئے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتے ہوں ، تعلیمی نظام کو ہنگامی بنیادوں پر تعلیم کی بہتری کیلئے حکمت عملیاں ترتیب دینے کیلئے کہا جائے، اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنایا جائے اور اسطرح کے ہر ممکن کارہائے نمایاں انجام دئیے جائیں ۔ یہ چند ایسی گزارشات ہیں جنہیں دوست کسی دیوانے کا خواب کہہ کر ٹالتے رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت ایسے اقدامات پر یقین رکھتی ہے اور اللہ کے حکم سے بہت جلد مہنگائی ،موروثی سیاست کے ساتھ اسی سرزمین میں دفن ہوجائےگی۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔