سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

پاکستان میں آوارہ کتوں کی تعداد کتنی ہے اس کا علم کسی کو نہی۔یہاں مردم شماری کا حال برا ہے۔ محتاط اندازہ یہ ہے کہ یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے۔ان میں دو پاؤں والے شامل نہیں۔ہر سال اس ملک میں سات لاکھ افراد سگ گزیدگی کا شکار ہوتے ہیں جس میں لگ بھگ تین سے پانچ ہزار افراد کتے کے کاٹنے سے باؤلے پن کا شکار ہو کر ایک اذیت ناک موت سے دوچار ہوتے ہیں۔

مرنے والوں کی اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔اسی طرح سالانہ کوئی تین ہزار بچے دوسری قسم والوں کا شکار ہو تے ہیں اور دونوں صورتوں میں یہ اعدادوشمار فقط وہ ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔دونوں اقسام کے پاگل کتوں کا علاج چارہ گروں نے یہی سوچا ہے کہ انہیں آختہ کر دیا جائے۔تجویز اگرچہ بری نہیں۔لیکن پکڑے جائیں گے تو آختہ کئے جائیں گے۔اسی لیے سانحات محض واقعات بن کر رہ گئے ہیں۔

سندھ میں آوارہ کتوں کی تعداد پچیس لاکھ سے زائد ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے سندھ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں سرفہرست ہے سندھ سرکار نے کروڑوں روپے کا پائیلٹ پراجیکٹ شروع کیا تھا جس کے تحت آوارہ کتوں کو مارنے کے بجائے انہیں ویکسین دی جانی تھی۔

 

بس مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ کتے موبائل فون استعمال نہیں کرتے نہ انہیں سم بند ہونے کا ڈر ہے اس لیے وہ ایکسپو سینٹر میں رات گئے تک قطاریں لگوا کر اپنے آپ کو ویکسین لگوانے یا آختہ کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ ڈھائی تین سال کے دوران سندھ میں صرف تیس ہزار کتوں کو ویکسین دی گئ اور ساڑھے تین ہزار کو آختہ کیا گیا۔پچیس لاکھ میں سے صرف تیس ہزارجبکہ باقی ملک میں اب تک یہ تعداد دس ہزار کا ہندسہ عبور نہیں کر پائی۔

اصل المیہ یہ ہے کہ ملک میں سالانہ دس سے بیس لاکھ اینٹی ریبیز ڈوز کی ضرورت ہے اور ایک مریض فقط پانچ ہزار روپے کی مکمل ڈوز سے صحت یاب ہو سکتا ہے۔لیکن سالانہ دو لاکھ ڈوز سے زیادہ یہاں میسر نہیں۔اگر آج بھی کسی کو کتا کاٹ کھائے تو اس اقربا شہر در شہر ویکسین ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اکثریت ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے آپ کو تسلی دینے پر مجبور ہوتی ہے کہ کتا پاگل نہیں تھااور پھر اس موت کا سامنا کرتے ہیں جس کا تصور سے بھی دل دہل جاتا ہے۔

آج سگ گزیدگی اور اس سے ہونے والے باولے پن کا عالمی دن ہے۔خوش قسمتی سے ہم دنیا کے ان چار پانچ ممالک میں شامل ہیں جہاں سڑکوں گلیوں کھیت کھلیانوں میں پاگل کتوں کا راج ہےاور اس کے خاتمہ کی کوئی امید نظر نہی آتی۔

مسئلہ فقط یہ نہیں کہ لوگوں کو کتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے المیہ یہ ہے راج نیتی میں کتوں کے ہمدرد بیٹھے ہیں۔ہم وہ معاشرہ بن رہے ہیں جہاں آدمیت دم توڑ رہی ہے اور کتے پھل پھول رہے ہیں۔

                                                     کوئی نہ ہوگا سننے والا بستی میں

                                                  کتے شہر کے اونچے سُر میں بھونکیں گے