افغانستان میں اسلام کی نشاۃثانیہ کے احیاء کا آغاز

نائن الیون سانحہ کے بعدامریکا نے اتحادیوں کی مدد سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرکے20 برس کے دوران کھربوں ڈالرز جھونک دئیے ۔واشنگٹن 3 لاکھ سے زائد افراد کو فوجی تربیت دے کر مسلح کرنے کے باوجود اپنے مذموم عزائم حاصل نہ کر سکا۔ افغانستان کی نئی صورتحال متقاضی ہے کہ دنیا ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق انداز فکر اپناتے ہوئے آگے بڑھے۔

عالمی طاقتوں کے پاس طالبان کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ انہیں تسلیم کرنے سے ہی خطے میں امن کی ضمانت ملے گی۔اقوام عالم کی کوششوں کا بنیادی محور ومرکز افغان عوام کی فلاح وبہبود اور بہتری ہونا چاہئے جو40 برس سے زائد عرصہ پر محیط تنازعے اور عدم استحکام سے بے پناہ متاثر ہوئے ہیں۔بیجنگ کاکابل کی ترقی و خوشحالی کیلئے 3کروڑ ڈالر زسے زائد کی امداد کا اعلان آئند ہے لہٰذا طالبان کے مثبت رویوںکے تناظر میں اب امریکا اور اس کے اتحادیوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ چین کی تقلید کرتے ہوئے افغانستان کو تورابورا بنانے کے بعد اس کی معاشی اور انسانی بنیادوں پر امدادبھی کریں۔

امارات اسلامی ایک ایسی سچائی بن کر ابھری ہے جسے اب دنیا کو بہرصورت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی خودمختاری‘ آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا ہوگا۔ افغانستان کے لئے تعمیری مصروفیات اور پائیدار انسانی مدد دیرپا امن اور استحکام کیلئے ضروری ہے۔ پاکستان ہمیشہ پر امن اور مستحکم افغانستان کا حامی رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان نے افغانستان کے اندر اور باہر موجود تمام عناصر کی ہر ممکن مدد بھی کی ہے۔ سابقہ افغان حکومت اور طالبان قیادت کے مابین مذاکرات کے لیے بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا اور غیر ملکیوں کے افغانستان سے بحفاظت انخلا ء کے لئے بھی پاکستان نے ہی مدد فراہم کی۔ اقوام متحدہ ہو یا عالمی ادارہ خوراک، امریکا ہو یا نیٹو، سب یہ جانتے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی معاملہ پاکستان کی مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے اندر موجود قوتیں بھی پاکستان پر اعتماد اور انحصار کرتی ہیں اور بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے بھی افغانستان کے معاملات میں کوئی کردار ادا کرنے کے لئے پاکستان ہی سے اعانت کی درخواست کرتے ہیں۔ ان دنوں افغانستان میں تشکیل پاتے نئے منظر نامے میں بھی پاکستان بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔

افغانستان میں پیدا ہونے والی نئی انتظامی صورتحال نے بہت سے مسائل اور پیچیدگیوں کو جنم دیا ہے۔ اس کے لیے بہت سے عناصر ذمہ دار ہیں جن میں سے کچھ تو افغانستان کے اندر موجود ہیں اور کچھ باہر بیٹھ کر کردار ادا کررہے ہیں۔ اس صورتحال کے اثرات افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے خطے میں عمومی طور پر ایک تشویش کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک طالبان حکومت کی تائید و حمایت کے لیے تیار ہیں ۔ اس وقت بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو افغانستان میں پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کے لیے طالبان کا ساتھ دینا چاہیے اور ان کی امداد کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جو افغانستان میں امن و امان قائم کرنے کے لیے اختیار کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں افغان طالبان کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسے گروہوں کو قابو میں رکھیں جو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں تخریب کاری کی کارروائیاں کر کے ان کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہمیشہ ہر ممکن کی ہے اور آج بھی افغانستان میں استحکام کے لیے ہر طرح کا تعاون کررہا ہے، لہٰذا افغان طالبان کو بھی پاکستان کی مشکلات مدنظر رکھنی چاہئیں۔

افغانستان پر مکمل غلبہ حاصل کرنے کے بعد طالبان نے گزشتہ روز نئی عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان کر د یاہے اس سلسلہ میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نئی افغان حکومت اور کابینہ کا اعلان کیا اور بتایا کہ نئی اسلامی حکومت کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ہوں گے جبکہ ملا عمر کے بیٹے عبدالغنی برادر کو قائم مقام نائب وزیر اعظم اور ملا امیر خاں متقی کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت توپوری دنیا میں روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طالبان نے افغانستان سے انخلاء کے لئے امریکہ کی مقرر کردہ 31 اگست کی ڈیڈ لائین سے بھی پہلے افغان فوج اور اس کی معاون سکیورٹی ایجنسیوں کو پسیا کر کے وادی پنجشیر کے سوا پورے افغانستان پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو کے رکن دوسرے ممالک اپنے سول و فوجی حکام اور دوسرے شہریوں کو بمشکل تمام کابل سے نکال پائے تھے۔ اس کے بعد دنیا بھر میں طالبان کی حکومت کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کا تقاضہ کیا جانے لگا۔

افغانستان میں متفقہ حکومت کی تشکیل اور اسے قانونی و آئینی طور پر اقتدار منتقل کرنے کے معاملہ پر افغانستان کے مختلف گروپوں کی قیادتوں نے طویل نشست میں باہم مشاورت بھی کی اور اس دوران بالخصوص بھارت کی جانب سے طالبان کے اقتدار کی راہ میں روڑے اٹکانے کی سازشیں بھی کی گئیں۔ وادی پنجشیر میں شمالی اتحاد کے احمد مسعود کے ذریعے طالبان کے ایک گروپ کو طالبان تنظیم کے مدمقابل لانے اور افغانستان میں انتشار پھیلانے کی سازش بھی کی گئی اور امریکہ نے افغانستان سے جاتے جاتے ڈرون حملے کر کے اور اس سے قبل کابل ائر پورٹ کے باہر اپنی پروردہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے ذریعے خودکش دھماکے کرا کے افغانستان میں طالبان انقلاب کے ذریعے ہموار ہوتی امن و استحکام کی فضا کو خراب کرنے اوردوبارہ بدامنی کے دروازے کھولنے کی کوشش کی مگر طالبان نے، جو اب 20 سال قبل کے طالبان کے برعکس بدلے ہوئے اور سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت عالمی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند طالبان ہیں ، اپنے فہم و تدبر سے افغانستان کو بدامنی کی جانب واپس دھکیلنے کی سازشیں ناکام بنائیں اور وادی پنجشیر میں بھی غلبہ حاصل کر کے اپنے مخالفین اور عالمی طاقتوں کی توقعات کے برعکس افغانستان میں اپنی عبوری حکومت تشکیل دے دی جو خالصتاً طالبان کی امارتِ اسلامی ہے۔

افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا حسن اخوند طالبان کے طاقتور فیصلہ ساز ادارے رہبری شوریٰ کے سربراہ بھی ہیں جن کا تعلق طالبان کی جائے پیدائش قندھار سے ہے اور وہ مسلح تحریک کے بانیوں میں شامل ہیں۔ وہ فوجی پس منظر سے زیادہ مذہبی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے تشکیل دی گئی طالبان ٹیم میں وہ بھی شامل تھے۔ اسی طرح عبوری نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں جن کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے ہے جو افغانستان کے بااثر قبیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا تعلق طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے ہے جو ان کے والد جلال الدین حقانی سے منسوب ہے اور سراج الدین حقانی کا یہ بھی طرہ امتیاز ہے کہ اقوام متحدہ کی جاری کردہ عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل ہے جن کے سر کی قیمت بھی مقرر کی گئی تھی۔ بلاشبہ افغان سر زمین پر اسلام کی نشاۃثانیہ کے احیاء کا آغاز ہو چکا ہے ۔تاہم طالبان کی عبوری حکومت کو پاکستان سمیت اگرچہ اب تک دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا تاہم چین ، ایران ، ترکی اور پاکستان سمیت خطے کے بیشتر ممالک کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔

پاکستان کے ساتھ تو حکومت کی تشکیل سے بھی پہلے طالبان کا نرم گوشہ رہا ہے اور وہ اپنی مزاحمتی تحریک میں پاکستان کی مدد حاصل ہونے کے بھارتی الزامات غلط اور محض جھوٹا پراپیگنڈہ قرار دیتے رہے ہیں جبکہ عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد بھی طالبان نے افغانستان بالخصوص پنجشیر میں پاکستان کی مداخلت کے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹا پراپیگنڈہ قرار دیا۔ اس حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کے روبرو ایک سوال کے جواب میں باور کرایا کہ وادی پنجشیر میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی اور وہاں مکمل امن ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب افغانستان میں جو ہتھیار اٹھائے گا وہ ہمارا دشمن ہو گا۔ اسی طرح طالبان ترجمان سہیل شاہین نے اعلان کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہرگز قائم نہیں کئے جائیں گے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان کے دوسری بار اقتدار سنبھالنے پراقوام عالم جہاںتشویش کا شکار ہے وہیں اس کے کشمیراور خالصتان تحاریک پر پڑنے والے اثرات سے بھارت بھی شدید خائف ہے کیونکہ افغانستان اور کشمیر کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور لسانیاتی ہم آہنگی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ صدیوں پرانی ہے،یاد رہے کہ کشمیر میں عبداللہ خان اسحاق نے پہلی بار 18ویں صدی کے وسط میں حکومت قائم کی تھی جس کے بعد افغان تقریباً 66 برس تک کشمیر کے حکمران رہے ۔کیااب طالبان کی نئی پالیسیاں افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے لئے امن کی علامت بن پائیں گی یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہاںیہ بات ذہن نشین رہے کہ کشمیرسے متعلق بھارت ایک مرتبہ پھرویسی ہی تشویش میں مبتلا ہے جیسی 1996ء میں ظاہر کی گئی تھی، اب یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ طالبان کشمیر کی مسلح تحریک میں پھر شامل ہوسکتے ہیں حالانکہ اس کے پاس 90ء کی دہائی میں کسی افغان جنگجو کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی اس بات کے شواہد ہیں کہ کشمیریوں نے کبھی ان سے مددطلب کی ہو۔

اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور دونوں کوہی اس حل نکالنا ہو گا لیکن یہ بھی حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں کسی بھی مسلمان کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ،سرعام چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے حوا کی بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کی جا رہی ہیں ، نوجوانوں کو دہشت گرد کا لیبل لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے،ہزاروں بے گناہ خواتین ،بچے اور بوڑھے عقوبت خانوں میں جرم ضعیفی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کیلئے دفعات 370 اور 35اے کو آئین سے حذف کرانے کیلئے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے بل کی منظوری حاصل کرنے کے بعد مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے2حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا گیاتاکہ نریندرمودی کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہو سکے لیکن یہ قابل تحسین امر ہے کہ کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں نہ ہی کوئی کمی آنے دی اورنہ ہی بھارتی مظالم کے آگے اپنے حوصلے پست ہونے دیئے۔