بتا تیری رضا کیا ہے

بات دعا کی تھی۔ہم صحنِ حرم میں نماز عصر کا انتظار کر رہے تھے۔ چار سالہ بیٹا احسن میرے ساتھ تھا ۔ کہ اگلی صف میں بیٹھی انڈونیشیا کی خاتون کو احسن کی طرف مڑ مڑ کر دیکھتے پایا ۔اسے شاید اس پر پیار آ رہا تھا۔ اس کی نگاہوں سے امڈتی محبت ہی تھی کہ میں نے احسن کو اس کے پاس جانے کو کہا وہ کھلکھلااٹھی بازو پھیلائے اور اسے گود میں بٹھا لیا۔ اپنے پرس سے کچھ میوے نکالےاور اصرار سے کھلانے لگی۔ پھر اس نے آنکھیں بند کیں اب وہ زیر لب کوئی دعا مانگ رہی تھی ۔ساتھ ہی معصومیت بھرے انداز میں احسن کی ناک کو چھوتی ۔کبھی آسمان کی طرف دیکھتی ۔میں نے برابر میں بیٹھی اسی کی ساتھی سے عربی میں سوال کیا یہ کیا مانگ رہی ہے دعا میں انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ہمارے ناک چپٹے ہوتے ہیں۔یہ حاملہ ہے اور دعا کر رہی ہے ۔کہ اس کے بچے کا ناک تمھارے بچے کی طرح پیارا ہو۔

مجھے اس پر بہت پیار آیااور یقیناً جس سے وہ مانگ رہی تھی۔اسے اس ادا پر بے حد و حساب پیار آیا ہوگا۔

میں نے احسن کی طرف دیکھا ۔اس کے نقوش بغیر مانگے ہی اللہ نے اتنے پیارے بنائے تھے۔لیکن زندگی میں بہت سی بد صورتیاں بھی تھیں ۔جو محسوس تو ہوتی تھیں۔لیکن ان کی خوبصورتی رب سے کبھی نہ مانگی تھی۔صحن حرم اور یہ احساس پھر مانگتی چلی گئی۔

یہ دعا بھی کیسی انمول نعمت ہے جو خالق کائنات نے دی ۔ورنہ وہ یہ بھی تو کہہ سکتا تھا۔جو دیا ہے اسے ہی کافی سمجھو اور کچھ نہ مانگنا ۔ہم بندے آخر کر ہی کیا لیتے ۔مگر اس نے نہ صرف یہ عنایت کی بلکہ وقت کی قید بھی نہیں رکھی اور نہ ہی کسی حالت کی ۔ہر وقت ہر جگہ اس سے مانگا جا سکتا ہے۔اس سے باتیں کی جا سکتی ہیں۔آرزوں اور تمناؤں کی جھولی پھیلائی جا سکتی ہے ۔ہر در سوالی کے لئے کھلا رکھا۔بلکہ سوالیوں کو بتایا۔ یہ وقت ہے جو صرف تمھارے لئے ہے ۔میں تیار بیٹھا ہوتا ہو ں۔مانگنے والوں کو دینے کے لیے۔بلکہ آوازیں لگاتا ہوں کوئی ہے مانگنے والا جسے عطا کروں۔کوئی ہے۔کوئی ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ تو وہ فرماتا ہے: کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا تاکہ میں اس کی مغفرت کروں۔‘‘

اور مانگنے والے اتنے غافل کہ پڑے سوتے رہتے ہیں۔ایک ساتھی سے گھر کے بارے میں بات ہوئی۔تو بے ساختہ کہنے لگیں۔اچھا اور بڑا گھر چاہیے؟روکا کس نے ہے؟مانگو اللہ سے۔ان کا انداز ایسا تھا کہ جیسے ہی مانگوں گی مل جائے گا۔کہنے لگیں ۔یو کے میں تھی کمپنی سے کنٹریکٹ ختم ہوا پندرہ دن میں مکان خالی کرنا تھا۔ عجیب بے بسی محسوس ہوئ ۔بچوں کے ساتھ مل کر مانگا۔

پندرہ دن بعد ہم اتنے شاندار گھر میں تھے کہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے ہمیں اتنا شاندار گھر بھی مل سکتا ہے۔یہاں معاملہ یقین کا تھا۔اس وقت فضا ایسی بنی کہ فوراً کہا نہیں اتنا شاندار نہیں چاہئے۔بس ایسا چاہیے کہ ایک پورشن رہائش کے ساتھ ایک بڑی لائبریری ہو اور ایک بہت بڑا ہال۔دینی سرگرمیوں کے لیے وقف۔جہاں ہم سب گھر والےاللہ کے مزدور ہوں۔ اور جہاں سے علم کے سوتے بہنے لگے۔ہم مل کر ہنس پڑیں۔جیسے اگر جلدی وضاحت نہ کی ہوتی تو شاندار گھر لمحوں میں اتار دیا جاتا۔اور پھر اسی دن پہلی مرتبہ اللہ سے دنیا میں ایک بڑا گھر مانگا۔

ساتھ ایک اور سہیلی بیٹھی تھی کہنے لگی ۔بھئ میرا اللہ کے ساتھ الگ معاملہ ہے۔ میں تو اس سے ہر ہر چیز مانگتی ہوں۔اور ذیادہ ذیادہ مانگتی ہوں۔سوچتی ہوں اتنی اعلیٰ ذات سے مانگنا ہے تو کم کیوں مانگوں۔اللہ سے اس کی شان کے مطابق مانگتی ہوں کم ظرف بندی ہوں میں کیا جانوں اعلیٰ کیا ہے اور ادنیٰ کیا۔چھوٹی موٹی چیزوں کی لسٹ تو ساتھ ساتھ جاری رہتی ہے۔

آج صبح ناشتہ نہیں کیا تھا ۔بس پھر مانگا اللہ جی سےبہترین سا ناشتہ کروا دینا۔اب خود دیکھ لو۔سامنے میز پر رکھے لوازمات کی طرف اس کااشارہ تھا۔

میں تو ڈر سی گئی۔یہاں تو معاملہ ہی اور تھا۔ان بڑوں میں بیٹھنے کے قابل کہاں تھی میں۔

بات دعاؤں کی چھڑی تھی ۔طویل ہو تی چلی گئی۔

تیسری ساتھی بولیں۔کہ جب میرا پہلا رشتہ آیا۔بہت اچھا تھا ۔دل کا جھکاؤ بھی ہوا۔لیکن اللہ نے ایک بات دل میں ڈالی۔میں نے نفل پڑھے اور کہا یا رب میرے دل کی بات نہیں۔بس جو میرے لئے بہتر ہو عطا کرنا۔نہ جانے اس طرح کا مانگنا کیسے آیا تھا ۔بے عقل سی تو تھی ۔لیکن یہ دعا بڑی شعور والی سوجھی تھی۔رشتہ وہاں نہیں ہوا ۔جہاں ہوا ۔وہاں دل کی آمادگی نہیں ہوئ تھی۔لیکن یقین تھا وہ جو کر رہا ہے۔بہتری مانگی ہے تو بہترہی دے گا۔

اور پھر گزرتے ماہ وسال میں عقدہ کھلابہتری کہاں کہاں کس کس مقام پر پوشیدہ تھی ۔ اور رب کی عنایات پر شکر بجا لائی۔مجھ جیسی ٹیڑھے مزاج والی کے ساتھ حکمت سے جڑے رہنے والا وہی تھا۔

ورنہ کوئی کب کا نکال چکا ہوتا۔میری طرح کیا آپ بھی سوچ رہے ہیں آج ہی سے اسی طرح رب سے مانگنے کا؟