کیا نیا ورلڈ آرڈر بننے جا رہا ہے؟

سیاسیاتِ عالم کا اگر عمیق مطالعہ کیا جائے تو جمہوری اقدار کے حامل ممالک سے لے کر بادشاہت،شہنشاہیت،فاشزم اور آمریت تک کی اساس پراپیگنڈہ اور سازشوں پر استوار ہوتی ہے۔نیو ورلڈ آرڈر بھی ایسی ہی سدِ سازش کی ایک خشت خیال کی جاتی ہے۔جس میں انتہائی خفیہ انداز سے مشترکہ مفادات کے حامل ممالک کسی ایک صفحہ پر جمع ہو کر اپنی طاقت کا لوہا منواتے ہیں۔امریکا کے ورلڈ آرڈر کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کس طرح دو ممالک کے درمیان سرد جنگ کا آغا ز ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی و معاشی طاقت کا محور ایک ملک امریکا بن گیا۔

لیکن کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اور بادشاہت مستقل نہیں ہوتی۔اسی لئے آپ نے تعلیماتی مشاہدہ کیا ہوگا کہ دنیا پر کتنے ہی سیاسی فرعون و نمرود آئے جو آج تہ خاک ہیں اور ان کی نسلوں کا آج کہیں کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔اسی طرح دنیا میں کتنے ہی سیاسی اتحاد قائم ہوئے جس کا تذکرہ آج محض کتابوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

حالیہ سیاست عالم کا اگر جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ چین دنیا میں ایک نئی سیاسی و معاشی قوت سے ابھر کر دنیا پر حکمرانی کا خواب نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ عنقریب میں اسے شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا بھی دیکھ رہا ہوں۔جس کی تازہ ترین مثال چین، روس،ایران،تاجکستان،افغانستان کے خفیہ اداروں کے چیف کا پاکستان میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمیدسے ملاقات ہے۔اگرچہ ا س ملاقات کا لب لباب یہی بتایا جا رہا ہے کہ خطہ کے امن اور سلامتی کے لئے باہمی تبادلہ خیال اور باہمی خفیہ رپورٹس کا تبادلہ ہے۔خاص کر افغانستان میں پائیدار امن اور مستقل استحکام کے لئے۔بالکل ہو سکتا ہے کہ ان ممالک کے خفیہ اداروں کی ملاقات کا ایک مقصد یہ بھی ہو کہ واقعتا یہ سب افغانستان میں مستقل امن اور سیاسی استحکام چاہتے ہوں۔لیکن سیاست میں کب کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔سیاسی اتار چڑھائو ملکوں کے معاشی پیمانے ظاہر کرتے ہیں۔اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس خطہ میں سیاسی امن ہی دراصل معاشی استحکام ہے۔اس معاشی استحکام کا سوپر مین کوئی اور نہیں بلکہ خود چین ہےاور پورے خطہ میں صرف افغانستان ہی ایک ایسا ملک تھا جو وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ ٹریک کے راستے میں کسی وقت اور کبھی بھی رکاوٹ بن سکتا تھا۔

اس کی بہت سی وجوہات تھیں،سب سے پہلے تو انڈیا کی افغانستان میں سرمایہ کاری،جب بھارت کی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری ہوگی تو ظاہر سی بات ہے وہ چین اور پاکستان میں کبھی بھی استحکام پیدا ہونے نہیں دے گا۔وہ ہر کام کرے گا جس سے دونوں ملکوں کی سیاسی ساکھ اور معاشی ترقی کو نقصان پہنچا سکے۔اور پھر اسی سرحد سے بھارت اپنے دہشت گرد بھیج کر پاکستان کو جانی نقصان بھی پہنچا چکا ہے۔ایسی صورت حال میں چین کا پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کی صورت حال کو بہتر بنانے اور اپنے منصوبے کو محفوظ بنانے کے لئے اسے یہ سب کرنا ہی تھا جو چین نے کیااور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے چین کا اس سلسلہ میں بھر پور ساتھ دیا۔کہ گوادر کی بندرگاہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں پل کا کردار ادا کرنے والا ملک کوئی اور نہیں بلکہ افغانستان ہی ہونا تھا۔

خطہ اور یورپ کے بہت سے ممالک جو بیلٹ اینڈ روڈ ٹریک کے ساتھ چین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس بات کا بھی عندیہ ہے کہ سپر پاور کا ٹیگ اب امریکا کی بجائے چین کو لگنے جا رہا ہےاور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو سمجھ جائیں کہ امریکا کی معیشت کمزورہونے جا رہی ہے۔معیشت کی کمزوری سے مراد ہے کہ لوکل لوگوں کا امریکہ سے اعتماد ختم ہو جائے گا،امریکہ میں رکھا ہوا لوگوں کا پیسہ محفوظ خیال نہیں کیا جائے گا،جسے ظاہر ہے وہ ایسے ممالک میں انویسٹمنٹ کریں گے جہاں ان کے سرمایہ کے حفاظت کی ذمہ داری دی جا سکے،گویا جب امریکہ میں رکھا ہوا پیسہ تقسیم ہو جائے گا تو امریکہ کی معاشی صورت حال ابتر ہو جائے گاامریکی معیشت ختم ہو جائے گی۔

جب امریکی معیشت کمزور ہونا شروع ہو گی تو ظاہر ہے کہ سرمایہ دار کسی نئے بلاک کا حصہ بنیں گے اور نیا بلاک چین کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوگا۔چین نے جس طرح سے سابقہ چند برسوں میں ایران،پاکستان،وسطی ایشیائی ریاستوں،اور اب افغانستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ چین اپنے ارد گرد ممالک اور بہت سے یورپی ممالک کے ساتھ مل کر این نیا بلاک بنانے جا رہا ہے۔گویا ایک نیا ورلڈ آرڈر بننے جا رہا ہے۔اگرچہ امریکا افغانستان سے انخلا کے بعد خاموشی سے بیٹھنے والا نہیں ہے۔وہ آخری گولی تک لڑنے والا ملک ہے۔کیونکہ ابھی حال ہی میں افغانستان سے ذلیل و رسوا ہو کر نکلنے کے باوجود اس نے افغانستان کے لئے امداد کا اعلان کیا ہے۔حالانکہ وہ صاف طور پر کہہ چکا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔لیکن اگر واقعی نیو ورلڈ آرڈر بن جاتا ہے اور علاقائی صورت حال چین کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہیں تو پھر چین کو دنیا کی معیشت کنٹرول کرنے سے امریکہ کبھی بھی روک نہیں پائے گا۔اس کا فیصلہ آنے والا وقت بہت جلد بتائے گا۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔