عوام کیا چاہتے ہیں

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ “جمہوریت بہترین انتقام ہے سے لے کر آپ کو گھبرانا نہیں ہے” تک  عوام  مسلسل عذاب کا شکار ہیں۔ مانا  کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو کرپشن زدہ جماعتیں ہیں لیکن یہ جو دودھ سے دھلے انصافی حکمران ہیں انہوں نے ایسی کون سی بے انصافی ہے جو عوام کے ساتھ نہیں کی ہے۔ سو دن تبدیلی نظر آنے کا دعویٰ کرنے والے آج تین سال گذر جانے کے باوجود وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں سے ان کا سفر شروع ہوا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقات کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ عوام کس کرب میں زندگی گذارنے پر مجبورہیں۔یہاں ایسے ایسے نادر شاہی احکامات سننے کو مل رہے ہیں کہ عوام سوچنے پر مجبور ہیں اگر یہی جمہوریت ہے تو خدا ان کو ایسی جمہوریت سے محفوظ رکھے۔

ملک میں جمہوریت کی دعویدار ان جماعتوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ان کے طرز عمل نے لوگوں کو جمہوریت سے بہت دور کردیا ہے۔ عوام جمہوریت ایسی چیز کو سمجھتے ہیں جہاں کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آکر کھاٶ پیو اور موج اڑاٶ کے مصداق ان کے مال پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیتی ہے۔ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے ڈیلیور نہ کرنے کے باعث عوام جمہوریت سے بدظن ہورہے ہیں حالانکہ اس میں قصور جمہوریت کا نہیں بلکہ ان کے نام لیواٶں کا ہے۔

بات کا آغاز تحریک انصاف سے ہوا تھا۔ پی ٹی آئی اس ملک کے نوجوانوں کے لیے ایک امید کی لہر بن کر اٹھی تھی لیکن اقتدار کے تین سال نے نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عمران خان شاید اس ملک کے واحد حکمران ہیں جو ماضی میں اپنی کہی ہوئی ہر بات کی خود ہی نفی کررہے ہیں۔ کہتے تھے کہ حکمران چور ہوں تو بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔آج ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں۔کہتے تھے کہ ڈالر کی قیمت میں تھوڑے سے اضافے سے آپ کے قرض دوگنے ہوجاتے ہیں اور آج ڈالر کی قیمت بھی آسمان سے بات کررہی ہے اور عمران خان صاحب وہی ایک بات کررہے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔

 کوئی ان سے پوچھے کہ حضور اب بھی نہیں گھبرانا تو کیا قبر میں جاکر گھبرانا ہے۔ ویسے بھی خان صاحب کہہ چکے ہیں کہ سکون صرف قبر میں ہی ہے لیکن پاکستان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کہاں جائیں گے

یہ تو تھی تحریک انصاف کی بات اگر ہم سندھ میں نظر دوڑائیں تو حالات بہت ہی خراب دکھائی دیتے ہیں۔ 13 سال سے صوبے میں حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک دینے سے قاصر ہے۔سندھ میں دراصل “پیسہ پھینک اور تماشہ دیکھ” کا اصول لاگو ہے۔غضب خدا کا یہ وہ صوبہ ہے جہاں اسکول کی ڈیسک جس کی قیمت چھ ہزار سے زیادہ نہیں اس کا29 ہزار کا ٹینڈر پاس کرلیا جاتاہے۔ 13 سال کے دوران پیپلز پارٹی کراچی کو نہ سہی کم از کم لاڑکانہ کوہی پیرس بنادیتی تو کچھ قرار آجاتا۔ ہم یہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے بنا کسی تعصب کے صوبے کے ہر علاقے اور لوگوں کو سہولیات سے محروم رکھا ہے۔

حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کو ہم کوئی مثال تو نہیں بناسکتے لیکن یہاں کم ترین ووٹنگ ٹرن آٶٹ اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ عوام مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آنا یہ بات واضح کررہا ہے کہ عوام اب بڑی جماعتوں کے لالی پاپ میں نہیں آنے والے ہیں۔ جماعت اسلامی اقتدار میں ہو یا نہ ہو وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کوشاں ریتی ہے اور اسی بات کا صلہ اسے ان انتخابات میں ملا ہے۔ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کو اب مزید اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ عوام اب پرانے چہروں سے عاجز آچکے ہیں۔

عوام اب ایک ایسا جمہوری طرز حکومت چاہتے ہیں جہاں انہیں کوئی شکار نہ سمجھے بلکہ انہیں بھی اس کا اسٹیک ہولڈر سمجھا جائے۔