صحافت اور جھوٹ پر مبنی خبریں

 اسوقت پورے پاکستان میں صحافت کے لیے نئے قوانین کا چرچا ہے اس طرف ڈھول کی تھاپ پر گیت گائے جا رہے ہیں کہ میڈیا جھوٹ پر مبنی رپورٹنگ کرتا ہے جس کی روک تھام کے لیے نیا قانون بنایا جا رہا ہے، اچھی بات ہے کہ جھوٹ پر مبنی رپورٹنگ کو لگام دینی چاہیے لیکن اسکے لیے تو پہلے سے قانون موجود ہے۔ کیا حکومت وقت یا کسی ادارے نے جھوٹ پر مبنی رپورٹنگ کے خلاف پولیس یا عدالت اور متعلقہ حکام سے رجوع کیا ہے؟ کیا جھوٹی رپورٹنگ پر کسی صحافی کو سزا ہوئی؟

 میرے خیال ہے کے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے زینب قتل کیس میں ذاتی رائے دی تھی جس پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا تھا،اب چونکہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں اور گڈ گورننس کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے، جسے میڈیا رپورٹ کر رہا ہے بوکھلاہٹ میں صحافت پر قدغن لگانے کے لیے نیا قانون بنایا جا رہا ہے۔ جسے پاکستان کے تمام صحافیوں نے مسترد کردیا ہے اور تادم تحریر احتجاج کیا رہا ہے۔

اب آجاتے ہیں حکومت وقت کے سیاستدان حضرات پر جو روز شام کو میڈیا پر بیٹھ کر جھوٹ بولتے ہیں مثال کے طور پر موجودہ وفاقی وزیر مراد سعید نے حکومت میں آنے سے پہلے سے عوام سے جھوٹ بولا تھا کہ عمران خان کی حکومت آئے گی تو پہلے دن 2 سو ارب پاکستان لائیں گے اور 100 ارب آئی ایم ایف کے منہ پر مارینگے کیا اس قسم کے جھوٹے دعوے وعدوں کے خلاف کوئی قانون بنے گا خود موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ 100 دنوں میں کرپشن ختم کرینگے / ایک کروڑ نوکریاں دینگے 50 لاکھ بنائیں گے کیا کسی کو وزیراعظم پاکستان کی طرف سے بنایا ھوا گھر ملا کیا کرپشن ختم ہو گی غرض سیاستدانوں کے جھوٹے دعوے وعدوں پر بھی کوئی قانون بنایا جائے گا کیا؟

کب تک پاکستان کی عوام کو سیاستدان بیوقوف بناتے رہینگے عوام کب تک دھوکہ کھاتی رہے گی عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہ کرنے پر بھی سیاستدانوں اور اداروں کے خلاف بھی قانون بنایا جائے اور سخت سے سخت سزائیں مقرر کی جائیں تاکہ کوئی وزیر یا سیاستدان جھوٹے دعوے وعدے نہ کرے۔