ٹی وی اسکرینوں پر چلتے اشتہارات *آسیب*

پتہ نہیں حوریہ کو کیا ہو گیا ہے پچھلے تین چار ماہ سے عجیب و غریب حرکتیں کرتی ہے دن بھر گھر میں لہراتی ہوئی گھومتی ہے کبھی دوپٹے کا پلّو کندھے پر رکھ کر باقی زمین پر گھسیٹتی پھرتی تو کبھی کہتی ہے ” میرا چاند سا روشن چہرہ“ معصومیت ختم ہوتی جا رہی ہے چہرے سے۔ مجھے لگتا ہے ڈاکٹر کو دیکھانا چاہیے یا کسی سے دم کروانا پڑے گا۔ تنزیل بہت پریشان تھی اور حوریہ کے بابا کو ساری باتيں بتا رہی تھی۔

عبد الوہاب نےغوروفکر کے بعد کہا چلو کچھ دن اور دیکھتے ہیں اللہ مالک ہے پھر آپا کی طرف لے جائینگے وہی حل کرینگی یہ مسئلہ۔بابا، بابا آپ کب آئے حوریہ محبت سے عبد الوہاب کے برابر میں بیٹھ گئی۔

تنزیل نے اشارہ کیا دیکھیں۔حوریہ نے ایک آستین نیچے کی ہوئی تھی اور سارے بالوں کو ایک سائیڈ گرایا ہوا تھا ۔ بابا کل ہم مارکیٹ چلےگے مجھے میک اپ لینا ہے۔ یہ سن کر تو تنزیل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہے گئیں ۔ پکا اثرآت ہو گئے ہیں میری بچی پر۔

ہفتہ یو ہی گزر گیا آپ نے آپا سے بات کی؟ ہاں آپا کہے رہی تھی کہ وہ خود آئینگی اور کسی سے دم کرانے کی ضرورت نہیں اللہ کا کلام گھر میں موجود ہےآپا خود دم کرینگی۔

پھوپھو آپ کب آئیں مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا ۔ آپا نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا بس ابھی آئی ہوں ۔کیسی ہے میری بیٹی۔ پھوپھو بھتیجی باتوں مصروف ہوگئیں۔تنزیل کھانے کا اہتمام کرنے لگی۔

____ ____ ____ ____

عبد الوہاب شام کو ہم سب کو آئسکریم کھانی ہے۔ کیوں بھئی حوریہ؟ آپا نے حوریہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ عبد الوہاب صاحب نے کہا ٹھیک ہے رات میں چلتے ہیں، رات کو سب تیار حوریہ کا انتظار کر رہے تھے۔حوریہ جلدی آجاٶ ورنہ ہم چلے جائینگے۔

حوریہ ٹک ٹک ٹک سیڑھیاں اُترتی نظر آئی ۔ سر پر دوپٹہ اوڑھنے والی یہ آٹھ سالہ بچی اب ہیل پہن کر دوپٹے کی تہے بنا کر گلے میں ڈال کر عجیب طرح چلتی آ رہی تھی۔ پل بھر کے لیے آپا سمجھی جن بھوت کاہی چکر ہے۔ پر اگلے ہی لمحے سب سمجھ آگیا۔ آئسکریم لینے حوریہ کو بھیج دو ہم سامنے ہی تو بیٹھے ہیں آپا کے کہے نے پر عبد الوہاب نے بھی کچھ نہیں کہا۔

دیکھو تنزیل مجھے تو حوریہ کی بیماری سمجھ آگئی اب جوجو میں دیکھاٶں دیکھتی رہنا۔حوریہ نے آئسکریم کے کون پکڑے اور لہراتی ہوٸ ایک بچی سےٹکرائی پھر دو بار گول گھوم کر چلنے لگی ٹیبل تک پہنچی تو کچھ گنگنا رہی تھی” نظریں ملانے والے دل کو چرانے والے نزدیک آنا نہیں اوہ اوہ“۔

صبح سب ناشتے سے فارغ ہوئے تو تنزیل نے کہا نہانے والے صابن لے آئیےگا ختم ہو گئے ہیں ۔بابا لکس سوپ لانا اور ویسے بھی۔ ” لکس سے بہتر کیا“اب اسکول بیگ اُٹھاتے ہوئے حوریہ گنگنا رہی تھی۔ وہ ملا کیوں تھا جب اُس سے ہی ہممم ہممم۔ تنزیل کو اب چکر آ رہے تھے یہ سب دیکھ کر۔

شام کو آپا نے تنزیل اور عبد الوہاب سے پوچھا حوریہ کہاں ہے۔ آپا وہ ٹیوشن گئی ہوئی ہے۔ بھئی۔ اچھا تم دونوں یہ بتاٶ کہ کیبل کب لگوایا تم نے؟ اور کیا حوریہ ٹی وی دیکھتی ہے؟ جی آپا لاک ڈاٶن میں لگوایا تھا تب ہم فارغ ہوتے تھے تو کچھ دیر ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھ لیتے تھے ابھی کچھ ماہ پہلے لاک ڈاٶن کھلا تو مجھے تو ٹائم نہیں ہوتا گھر کے کاموں سے اور عبد الوہاب دکان پر ہوتے ہیں۔ آپا نے پھر سوال کیا۔ تو ٹی وی کون دیکھتا ہے؟ حوریہ دیکھ لیتی ہے کارٹون وغیرہ بس۔ تمہیں کیسے پتہ وہ کارٹون ہی دیکھتی ہے آپا نے پھر سوال کر لیا؟ میں نے دیکھا نہیں پر وہ اور کیا دیکھے گی۔

تنزیل یہ بچے بہت تیز ہیں ہماری سوچ سے بھی زیادہ اب سنو یا تو تم کیبل ہٹوا دو یا بچی کے ساتھ بیٹھا کرو وہ کیا دیکھتی ہے کیا نہیں تمہیں پتہ ہونا چاہیے اور ہاں حوریہ پر اثرآت ہیں پر جن بھوت کے نہیں بلکہ اس میڈیا کے جو ہماری نسلوں کی ذہن سازی کر رہا ہے ۔ ہمارا چلنا پھرنا اُٹھنا بیٹھنا پہننا اُڑھنا سب اسی کے ہاتھوں میں ہے ہمارے بچے اپنے کلچر کو بھولتے جا رہے ہیں۔

 پر آپا میں نہیں مان سکتی کے ٹی وی سے اتنا اثر ہوسکتا ہے۔ تم ٹی وی آن کرو یہ تو ڈرامہ ہے کچھ اور لگاتی ہوں ۔ آپا نے ہاتھ سے روکتے ہوئے کہا نہیں نہیں لگا رہنے دو حوریہ نے یہی چینل دیکھا ہوگا۔ ایک دم آئسکریم کا اشتہار آگیا۔ یہ لو تنزیل کل جو حوریہ نے کیا تھا آئسکریم پارلر میں کیا ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ تنزیل حیران ہوکر بولی ہاں ہاں۔

 اگلا اشتہار لکس کا تھا اُس میں مہویش حیات ایک بازو کا ڈریس پہنے بڑا اچھا محسوس کر رہی تھی اینڈ میں آواز آتی ہے چاند سا روشن چہرہ۔

اب سمجھیں تنزیل تم عبد الوہاب اپنی بچی کو اس آسیب سے بچا لو جو خدانہ خاستہ نسلوں میں داخل ہو جائےگا۔ ہمیں باحیا اور مضبوط بہن۔بیٹی۔ماں اور بیوی چاہیئے جو جسم دیکھا کر نہیں بلکہ چھپا کر ترقی کرے اور خود کو قیمتی بنائے اور سمجھے آپا نے گہرا سانس لیا اللہ سب کی عزتوں کو محفوظ رکھے۔آمین